کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 318
الحقیقۃ‘‘۱ھ(ص:۲۳۰)) ’’پس تعدیل کے الفاظ کے چند مرتبے ہیں ) مصنف نے ابن صلاح کی طرح ابن ابی حاتم کی پیروی میں چار مرتبے ذکر کیے ہیں اور ذہبی اور عراقی نے یہ مراتب پانچ بنائے ہیں اور شیخ الاسلام نے چھ بنائے ہیں ( ان میں سب سے بلند) مصنف کے ذکر کے اعتبار سے (ثقہ یا متقن یا ثبت یا حجۃ یا عدل حافظ یا) عدل (ضابط) ہے ۔ اور ذہبی اور عراقی نے جو مرتبہ زیادہ کیا ہے وہ اس مرتبہ سے بلند ہے اور وہ ہے جس میں مذکورہ الفاظ بعینہ مکرر لائے جائیں یا کوئی دو لفظ مکرر لائے جائیں مثلاً ثقۃ ثقۃ یا ثقۃ ثبت یا ثقۃ حجۃ یا ثقۃ حافظ اور جو مرتبہ شیخ الاسلام نے زیادہ کیا ہے وہ تکریر کے مرتبہ سے بھی بلند ہے اور وہ ہے جس میں افعل ( تفضیل) کے ساتھ وصف بیان کیا جائے۔مثلاً أوثق الناس ، أثبت الناس یا اس جیسے الفاظ مثلاً الیہ المنتہیٰ فی التثبت۔ میں کہتا ہوں اسی مرتبے سے یہ لفظ بھی ہیں ’’ اس سے زیادہ پختہ کوئی نہیں ۔‘‘ اور ’’فلاں کی مثل کون ہے‘‘ اور ’’فلاں کے متعلق سوال نہیں کیا جاتا ‘‘ اور میں نے کسی کو نہیں دیکھاجس نے یہ تین لفظ ذکر کیے ہوں حالانکہ تعدیل کے الفاظ میں یہ لفظ بھی آتے ہیں تو وہ مرتبہ جو مصنف نے اعلیٰ قرار دیا ہے درحقیقت وہ تیسرا ہے۔‘‘۱ھ(ص:۲۳۰) تو محمد بن یوسف اور یزید بن خصیفہ کے بارے میں حضرت المؤلف کے نقل کردہ الفاظ توثیق کے لحاظ سے محمد بن یوسف تعدیل کے دوسرے مرتبہ میں اور یزیدبن خصیفہ توثیق کے تیسرے مرتبہ میں ہیں لہٰذا محمد بن یوسف یزید بن خصیفہ سے اوثق ہیں تو ترجیح محمد بن یوسف کی روایت کو ہو گی نہ کہ یزید بن خصیفہ کی روایت کو اوراگر تسلیم کر لیا جائے کہ درجہ ثقاہت میں یہ دونوں بزرگ برابر ہیں تو بھی کثرت صحبت اور رشتہ داری کی بناء پر ترجیح محمد بن یوسف کی روایت کو دی جائے گی ۔ اور کثرت صحبت اور رشتہ داری کا وجوہ ترجیح میں شامل ہونا پہلے با حوالہ بیان ہو چکا ہے۔ رہے حارث بن عبدالرحمان تو محمد بن یوسف کا ان سے اوثق ہونا ظاہر بات ہے کیونکہ محمد بن یوسف تو ثقہ ثبت ہیں اور حارث بن عبدالرحمن صدوق یھم۔ رہا حارث بن عبدالرحمن کا رجال مسلم سے ہونا تو وہ اتنے سے تو محمد بن یوسف کے برابر بھی نہیں ہو سکتے چہ جائیکہ وہ محمد بن یوسف سے اوثق بنیں کیونکہ کسی راوی کا دوسرے درجہ کا ثقہ ہونا مسلم کی شرط نہیں ہے جبکہ عالم یہ ہے کہ حارث بن عبدالرحمن تو مسلم کے رجال سے ہیں اور محمد بن یوسف بخاری اور مسلم دونوں کے ر جال سے ہیں ، پھر محمد بن یوسف میں ترجیح کی دو اور وجہیں کثرت صحبت اور حضرت سائب سے رشتہ داری بھی موجود ہیں نیز حارث بن عبدالرحمن کی روایت کی سند محمد بن یوسف کی روایت کی سند کے ہم پلہ نہیں