کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 315
شروع میں (گیارہ رکعتیں تھیں )جیسا کہ ابن عبدالبر نے کہا کہ یہ روایت وہم ہے اور ثابت یہی ہے کہ لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد میں بیس رکعتیں قیام کرتے تھے اور یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ سند تو اس (گیارہ) کی بھی صحیح ہے جواب یہ دیا جائے گا کہ شاید انہوں نے بعض راتوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تشبیہ کا ارادہ کیا ہو کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو آٹھ رکعت اور وتر پڑھائے۔ اگرچہ ان کا معاملہ بیس پر آٹھہرا۔ اور تئیس رکعت والی روایت میں راوی نے تین وتر بھی شمار کر لیے کیونکہ آیا ہے کہ لوگ تین وتر پڑھتے تھے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آخر میں معاملہ اسی بات پر آٹھہرا کہ وتر تین ہیں اور وہ صلاۃ اللیل میں داخل نہیں ۔ انتہی۔ ج:۳، ص:۱۹۲ اور صاحب تحفۃ الاحوذی نے ابن عبدالبر کے قول ( میرے نزدیک زیادہ غالب یہ ہے کہ مالک کا قول گیارہ رکعت وہم ہے) پر زرقانی اور نیموی کا رد نقل کرنے کے بعد فرمایا: صاحب تحفہ کی بلفظہ عبارت کا ترجمہ ۔تو جب ثابت ہو گیا کہ مالک اپنے قول گیارہ رکعت میں اکیلے نہیں بلکہ اس لفظ پر ان کی متابعت عبدالعزیز نے کی ہے اور وہ ثقہ ہیں اور جرح و تعدیل کے امام یحییٰ بن سعید قطان نے بھی متابعت کی ہے جن کے متعلق حافظ نے تقریب میں فرمایا: ثقہ متقن حافظ ، امام ‘‘ تو تمہارے لیے روزِ روشن کی طرح واضح ہو گیا کہ ابن عبدالبر کا قول ’’ کہ میرے نزدیک زیادہ غالب یہ ہے کہ مالک کا قول گیارہ رکعت وہم ہے۔‘‘ صحیح نہیں بلکہ اگر تم تدبر کرو گے تو تمہیں ظاہر ہو جائے گا کہ اصل معاملہ اس بات کے برعکس ہے جو ابن عبدالبر نے کہی ہے ۔ میرا مطلب یہ ہے کہ اس اثر میں مالک کے غیر کا قول اکیس رکعت جیسا کہ عبدالرزاق کی روایت میں ہے وہم ہے کیونکہ اس اثر کو ان لفظوں کے ساتھ روایت کرنے میں صرف عبدالرزاق اکیلا ہے اور جہاں تک مجھے معلوم ہے اس کے علاوہ کسی نے اسے ان لفظوں میں روایت نہیں کیا۔ اور عبدالرزاق اگرچہ ثقہ اور حافظ ہیں ، مگر آخر عمر میں نابینا ہو گئے تو متغیر ہو گئے ۔ جیسا کہ حافظ نے تقریب میں اس کی تصریح کی ہے ، رہے امام مالک تو حافظ نے تقریب میں فرمایا: دار الہجرت کے امام متقنین کے رئیس اور متثبتین کے سردار ہیں یہاں تک کہ بخاری نے فرمایاکہ تمام سندوں سے زیادہ صحیح سند ’’مالک عن نافع عن ابن عمر ‘‘ہے۔انتہی۔ علاوہ ازیں مالک اس اثر کو گیارہ کے لفظ کے ساتھ روایت کرنے میں اکیلے نہیں بلکہ سعید بن منصور اور ابن ابی شیبہ نے اس اثر کو ان لفظوں میں روایت کیا ہے :’’جیسا کہ تمہیں معلوم ہو چکا ہے تو حاصل یہ ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے اثر