کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 314
بلفظ احدی عشرۃ بل اخرجہ ایضا بھذا اللفظ۔سعید بن منصور و ابن ابی شیبۃ کما عرفت فالحاصل ان لفظ احدی عشرۃ فی اثر عمر بن الخطاب المذکور صحیح ثابت محفوظ و لفظ احدی و عشرون فی ھذا الاثر غیر محفوظ و الاغلب انہ وھم۔ ۱ھ(ج:۲،ص:۷۴) وقال الحافظ فی تہذیب التہذیب : وقال ابن المدینی سمعت ابن مھدی یقول : کان وھیب لا یعدل بما لک احدا۔ وقال ایضا: وکان ابن مھدی لا یقدم علی مالک احدا۔ وقال ایضا وقال النسائی : ما عندی بعد التابعین انبل من مالک ولا اجل منہ ولا اوثق ولا آمن علی الحدیث منہ.....الخ(جلد:۱۰، ص:۷،۸،۹) ’’ترجمہ:.....اولاً .....زرقانی نے مؤطا کی شرح میں فرمایا: ’’ ان یقوما للناس باحدی عشرۃ رکعۃ‘‘ باجی رحمہ اللہ نے فرمایا: کہ شاید حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ تعداد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز سے لی ہو۔ کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے کہ ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رمضان میں نمازپوچھی گئی تو انہوں نے فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ اور ابن عبدالبر نے فرمایاکہ مالک کے علاوہ دوسرے راویوں نے اس حدیث میں اکیس رکعتیں روایت کیں اور یہی صحیح ہے اور مجھے مالک کے علاوہ کوئی شخص معلوم نہیں جس نے گیارہ رکعات روایت کی ہوں اور یہ بھی احتمال ہے کہ پہلے گیارہ ہی ہوں ، پھر لوگوں سے لمبے قیام میں تخفیف کر دی گئی اور انہیں اکیس رکعتوں کی طرف منتقل کر دیا ہو۔ مگر میرے نزدیک زیادہ غالب یہی ہے کہ گیارہ رکعت وہم ہے انتہی۔ اور جب اس احتمال کے ساتھ تطبیق بالکل آسان ہے جو ابن عبدالبر نے بیان کیا تو یہ لفظ وہم نہیں ہے اور بیہقی نے بھی یہی تطبیق دی ہے اور اس نے جو یہ کہا کہ مالک اس میں اکیلے ہیں تو یہ بات اس طرح نہیں جس طرح انہوں نے فرمائی کیونکہ سعید بن منصور نے ایک دوسری سند کے ساتھ محمد بن یوسف سے روایت کی ہے اور فرمایا: ’’گیارہ رکعتیں ‘‘ جس طرح مالک نے فرمایا۔ ۱ھ(ج:۱، ص:۲۳۹) اور صاحب آثار السنن نے فرمایا کہ ابن عبدالبر نے جو مالک کا وہم قرار دیا ہے بالکل غلط ہے کیونکہ مالک کی متابعت عبدالعزیز بن محمد نے کی ہے۔ آخر عبارت تک جو اس سے پہلے ہم نے التعلیق الحسن سے نقل کی ہے اور علی قاری نے مرقاۃ میں فرمایا: (باحدی عشرۃ رکعۃ)یعنی شروع