کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 312
ہاں صاحب رسالہ کے اندازِ فکر کو پیش نظر رکھا جائے تو پھر حضرت سائب بن یزید کے تینوں شاگردوں کے بیانات باہم مختلف ہیں ۔ نیز یزید بن خصیفہ اور حارث بن عبدالرحمن کے بیانات میں نہ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حکم کا ذکر ہے اور نہ ہی ان کے عمل کا بلکہ ان میں تو یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ لوگوں کے بیس رکعات پڑھنے کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو علم تھا یا نہیں تو ان بزرگوں کے بیانات میں سے بیس رکعات کے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی سنت ہونے پر استدلال کرنا درست نہیں ۔ ترجیح و تطبیق کی تحقیق حضرت المؤلف تحریر فرماتے ہیں : ’’حافظ ابن عبدالبر مالکی المتوفی ۴۶۳ھ نے دونوں صورتیں اختیار کی ہیں ، گیارہ اور اکیس میں اکیس کو ترجیح (قوت) دی اورگیارہ کو مرجوح (کمزور) قرار دیا اور اس کے ساتھ تطبیق کی یہ صورت بھی لکھی ہے کہ پہلے گیارہ کا حکم دیا ہو ، پھر قیام میں تخفیف کے لیے گیارہ کی بجائے اکیس رکعتیں کر دی گئی ہوں اور زرقانی مالکی نے اسی تطبیق کو پسند کیا اور کہا کہ امام بیہقی نے بھی مختلف روایتوں کو اسی طرح جمع کیا ہے (زرقانی شرح مؤطا جلد :۱،ص:۲۱۵) اور دیگر ائمہ حدیث نے بھی اسی تطبیق کو پسند کیا ، خصوصاً حافظ ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری میں اور علامہ شوکانی نے نیل الاوطار میں تطبیق کی صورت اختیار کی۔‘‘ ۱ھ(ص:۲۴) (( أولاً:.....قال الزرقانی فی شرح المؤطا (ان یقوما للناس بإحدی عشرۃ رکعۃ) قال الباجی : لعل عمر اخذ ذالک من صلاۃ النبی صلی ا للّٰه علیہ وسلم ففی حدیث عائشۃ انھا سئلت عن صلاتہ فی رمضان فقالت: ما کان یزید فی رمضان ولا فی غیرہ علی احدی عشرۃ رکعۃ۔ وقال ابن عبدالبر: روی غیر مالک فی ھٰذا الحدیث احدی وعشرون و ھو الصحیح ولا اعلم احدا قال فیہ احدی عشرۃ الا ما لکا و یحتمل ان یکون ذالک اولا ثم خفف عنھم طول القیام ونقلھم الی احدی و عشرین الا ان الاغلب عندی ان قولہ : احدی عشرۃ وھم۔ انتہی ولا وھم مع ان الجمع بالاحتمال الذی ذکرہ قریب و بہ جمع البیہقی ایضا وقولہ : ان مالکا انفرد بہ لیس کما قال فقد رواہ سعید بن منصور من وجہ آخر عن