کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 311
وخامساً : .....جس طریقہ سے حضرت المؤلف نے گیارہ رکعت والی روایت کو مضطرب بنایا اگر اس طریقہ کو اختیار کیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کی بیس رکعات والی روایت بھی مضطرب ہے کیونکہ حضرت سائب بن یزید کے تین شاگردوں محمد بن یوسف ، یزید بن خصیفہ اور حارث بن عبدالرحمن کے بیانات باہم مختلف ہیں جیسا کہ درج ذیل نقشہ سے صاف ظاہر ہے: حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ ۱۔(محمد بن یوسف) ۲۔(یزید بن خصیفہ) ۳۔(حارث بن عبدالرحمن)  ان کے پانچوں شاگردوں کے مذکورہ بیانات کو ذہن میں رکھیں جن کو حضرت المؤلف باہم مختلف قرار دے چکے ہیں نیز ایک نقشہ دے کر انہوں نے ان کے اختلاف کی صورت کو واضح کیا ہے۔ ۱۔ہم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بیس رکعات اور وتر پڑھتے تھے (مالک اور محمد بن جعفر) ۲۔لوگ حضرت عمر کے زمانہ میں بیس رکعات پڑھتے تھے۔(ابن ابی ذئب) (پہلے بیان میں اپنے عمل کا ذکر ہے لوگوں کے عمل کا ذکر نہیں ، دوسرے بیان میں اس کا عکس نیز پہلے بیان میں وتر کا ذکر ہے دوسرے میں وتر کا ذکر نہیں ، پھر ان دونوں بیانوں میں حکم کا ذکر نہیں اور نہ ہی ابی بن کعب و تمیم کا نیز گیارہ ، تیرہ اور اکیس کی بجائے بیس کا ذکر ہے) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں قیام تئیس رکعات تھا۔ (اس میں بھی نہ حکم کا ذکر ہے نہ ہی ابی بن کعب و تمیم کا پھر گیارہ ، تیرہ ، بیس اور اکیس کی بجائے تئیس کا ذکر ہے)  پس اصول حدیث کی رو سے یہ روایت مضطرب ہے اور اس حالت میں جب تک کہ کسی ایک بیان کو اصول کے مطابق ترجیح نہ دی جائے یا تما م بیانات میں تطبیق نہ دی جائے اس وقت تک اس روایت کو کسی مدعا کے ثبوت میں پیش کرنا درست نہیں جب کہ عالم یہ ہے کہ حضرت المؤلف بطرق ثلاثہ اس روایت کو اپنے مدعا کے ثبوت میں پیش فرما چکے ہیں رہی ترجیح و تطبیق والی بات تو اس پر کلام آ رہا ہے۔ان شاء اللہ تعالیٰ اب اگر ترجیح کی راہ اختیار کی جائے تو محمد بن یوسف کی گیارہ رکعات والی روایت کو ترجیح ہو گی جیسا کہ تینوں بزرگوں کی روایات کی اسناد پر کلام سے ظاہر ہے مگر اس میں یہ نقص ہے کہ ترجیح کی راہ تب اختیار کی جاتی ہے جب رواۃ کے بیانات میں مخالفت و منافات ہو اور وہ اس مقام پر ہے ہی نہیں جیسا کہ تدبر و تامل کرنے سے ظاہر ہے۔