کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 302
نماز بیٹھ کر پڑھنے سے کھڑے ہو کر پڑھنے کے برابر ثواب ملنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ ہے ۔ [1]دوسراکوئی نفل نماز بلا عذر بیٹھ کر پڑھے گا تو کھڑے ہو کر پڑھنے کی بنسبت نصف اجر و ثواب ملے گا۔[2] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کل صلاۃ اللیل پندرہ رکعات ہے ۔ گیارہ رکعات تو ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا والی حدیث: (( مَا کَانَ یَزِیْدُ فِیْ رَمَضَانَ وَلَا فِیْ غَیْرِہِ عَلَی إِحْدٰی عَشَرَۃَ رَکْعَۃً یُصَلِّیْ أَرْبَعًا فَلَا تَسْأَلْ عَنْ حُسْنِھِنَّ وَطُوْلِھِنَّ)) [3] اوردو ہلکی پھلکی رکعتیں صلاۃ اللیل کے افتتاح و آغاز میں اور دو وتروں کے بعد دیکھیں صحیح مسلم۔ تو یہ کل پندرہ رکعات بنتی ہیں ، یہ تمام رکعات پہلی رات پڑھ لے یا درمیانی رات پڑھ لے یا ان سے کچھ پہلی رات ، درمیان رات اور کچھ آخر ( رات پڑھ لے یا ان سے کچھ پہلی رات) اور کچھ آخر رات پڑھ لے ، صلاۃ اللیل میں پندرہ رکعات پڑھنے کی یہ پانچوں صورتیں درست ہیں ۔ صلاۃ اللیل میں پندرہ سے کم رکعات پڑھنا بھی درست ہے ۔ البتہ صلاۃ اللیل میں پندرہ رکعات سے زائد رکعات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ۔ ۵؍۱۱؍۱۴۲۵ھ س: .....میں نے ایک عالم سے کہا کہ مؤطا میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے گیارہ رکعات تراویح ثابت ہیں ۔ اس نے مجھے کہا کہ گیارہ والی روایت مضطرب ہے میں اناڑی تھا خاموش ہو گیا۔ میں اب آپ سے التماس کرتا ہوں کہ آپ مجھے مضطرب کی تعریف عربی میں اور ترجمہ اُردو میں لکھ کر بھیجیں ۔ مطلوب حدیث کے اطلاقات واضح کریں اور اس گیارہ والی روایت کے سارے طرق لکھ کر وضاحت فرمائیں کہ یہ مضطرب نہیں ہے۔ مزید کوئی مضطرب حدیث بھی لکھ بھیجیں تاکہ دونوں کا فرق واضح ہو سکے۔(اللہ دتہ ، کامرہ اٹک) ج: عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ابی بن کعب اور تمیم داری رضی اللہ عنہ کو گیارہ رکعات پڑھانے کے حکم والی مؤطا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی روایت پر تفصیلی بات چیت اس بندۂ فقیر الی اللہ الغنی کی کتاب ’’تعداد تراویح ‘‘ میں دیکھ لیں ۔ ان شاء اللہ العزیز اس سلسلہ میں آپ کے شکوک و شبہات دور ہو جائیں گے ۔بفضل اللہ و توفقیہ ۔ میرے پاس تعداد تراویح کا کوئی نسخہ نہیں کہیں سے حاصل کر لیں اور پڑھیں ۔ ۱۳؍۱؍۱۴۲۳ھ [تعدادِ تراویح استادِ محترم حافظ عبدالمنان صاحب نور پوری کی کتاب ہے جو مولانا غلام سرور صاحب گجراتی کے رسالہ ’’بیس رکعات تراویح کا شرعی ثبوت ‘‘ کے جواب میں لکھی گئی۔ اس رسالہ میں مولانا غلام سرور صاحب نے
[1] ابن ماجہ؍اقامۃ الصلوٰۃ ؍ باب صلاۃ القاعدہ علی النصف من صلاۃ القائم [2] مشکوٰۃ ؍باب القصد فی العمل ؍ الفصل الثالث [3] صحیح بخاری؍ التہجد ؍باب قیام النبی صلی ا للّٰه علیہ وسلم رمضان وغیرہ