کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 299
صَلّٰی مَعَ الْاِمَامِ حَتّٰی یَنْصَرِفَ حُسِبَ لَہٗ قِیَامُ لَیْلَۃٍ)) [1] [’’جو شخص امام کے ساتھ قیام کرتا ہے اس کے لیے پوری رات کا قیام لکھا جاتا ہے۔‘‘] #پچھلی رات و آخری حصہ رات میں قیام کی فضیلت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (( یَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَکَ وَتَعَالٰی کُلَّ لَیْلَۃٍ إِلَی السَّمَائِ الدُّنْیَا حِیْنَ یَبْقٰی ثُلُثُ اللَّیْلِ الآخِرُ یَقُولُ مَنْ یَدْعُوْنِیْ)) [2] [’’ہمارا پروردگار ہر رات آسمان دنیاپر نزول فرماتا ہے ۔ جب آخری تہائی رات باقی رہ جاتی ہے تو آواز دیتا ہے کوئی ہے جو مجھ سے دعا کرے میں اسے قبول کروں ، کوئی ہے جو مجھ سے مانگے میں اسے دوں ، کوئی ہے جو مجھ سے بخشش طلب کرے تو میں اسے معاف کروں ۔ ‘‘] یہ تینوں فضیلتیں اس غیر معتکف کو حاصل ہوتی ہیں جو قیام رات کے آخری حصہ میں گھر میں با جماعت ادا کر ے اس کے علاوہ کوئی ایک فضیلت حاصل کر رہا ہے اور کوئی دو۔ رہا معتکف تو اس نے مسجد میں رہنا ہوتا ہے ، گھر جا ہی نہیں سکتا ، الا لحاجۃ الانسان اس لیے اس کے لیے افضل یہ ہے کہ قیام رات کے آخری حصہ میں با جماعت ادا کر لے ، اگر وہ رات کے آخری حصہ میں بغیر جماعت قیام کرتا ہے تو وہ جماعت والی فضیلت سے محروم اور اگر وہ پہلے با جماعت قیام کرتا ہے تو پھر وہ رات کے آخری حصہ میں قیام کی فضیلت سے محروم۔ تو ثابت ہوا ہے کہ معتکف کا جواب ’’آپ نے صرف تین دن نمازِ تراویح با جماعت ادا کی ‘‘ درست نہیں ۔ ۵؍۱؍۱۴۲۱ھ س: بعض مساجد میں رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں لیلۃ القدر کا ثواب حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ بیس پچیس منٹ میں نمازِ تراویح سے فارغ ہو جاتے ہیں ، پھر وعظ و تقریر کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ، پھر مسجد کی بتیاں (روشنی) بجھا کر بڑی گریہ و زاری کے ساتھ چیخیں مار مار کر رونے کے انداز میں دعا کرتے ہیں ، لیلۃ القدر کا ثواب حاصل کرنے کا یہ طریقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے یا نہیں ؟ اگر یہ طریقہ ثابت نہیں تو کیا یہ بدعت ہے؟ (محمد یونس شاکر) ج: لیلۃ القدر کے قیام و ثواب کا یہ طریقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ۔ ۶؍۱؍۱۴۲۴ھ
[1] ابو داؤد؍ابواب شہر رمضان ؍باب فی قیام شہر رمضان ۔ ترمذی؍ الصوم ؍باب ما جاء فی قیام شھر رمضان [2] بخاری؍کتاب التہجد؍باب الدعاء والصلاۃ من آخر اللیل