کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 281
یہ موقوف ہے۔ ابن خزیمہ نے بھی اسی طرح روایت کیا ہے۔ اس روایت کا راوی عبدالوہاب بن مجاہد متروک الحدیث ہے اور امام ثوری نے تو اسے کذاب تک کہا ہے۔ اور ازدی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ اس سے روایت کرنا حلال نہیں ۔ مزید براں یہ کہ اس کا اپنے باپ سے سماع ہی ثابت نہیں ۔ لہٰذا یہ روایت ضعیف اور منقطع ہے اور ناقابل استدلال ہے۔ ]مجھے تو اس کا علم نہیں ، حوالہ درکار ہے بلوغ المرام کی شرح یا بلوغ المرام کے حاشیہ کا حوالہ ناکافی ہے۔ اصل کتاب کا حوالہ لکھیں ۔ ۸ ؍ ۱ ؍ ۱۴۲۴ھ س: اگر بندہ سفر میں ہے تو اس کو سفر میں ظہر اور عصر کی اذان ہوتی ہے ، وہ یہ دونوں نمازیں ادا نہیں کرسکتا۔ کسی مجبوری کی وجہ سے تو وہ جب گھر پہنچے گا تو کیا وہ سفر کی دو دو رکعت نماز ادا کرے گا یا وہ پوری نماز پڑھے گا؟ (سجاد الرحمن شاکر) ج: پوری پڑھے گا ، کیونکہ وہ دورانِ سفر نہیں اور قصر دورانِ سفر ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ وَإذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلاَۃِ ﴾[النساء: ۱۰۱][ ’’ اور جب تم زمین میں سفر کرو تو تمہارے لیے نماز مختصر کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔‘‘ ] ۱۵ ؍ ۱۲ ؍ ۱۴۲۳ھ س: سواری پر بندہ فرضی نماز ادا کر سکتا ہے جیسے ٹرین یا بحری جہاز وغیرہ یا نہیں ؟ (قاری عبدالصمد) ج: کشتی اور جہاز کے علاوہ دوسری سواریوں پر فرض نماز ادا نہیں کر سکتا دلائل کے لیے فقہ السنہ دیکھ لیں ۔ ۲؍۲؍۱۴۲۴ھ [الصلاۃ فی السفینۃ والقاطرۃ والطائرۃ ((تصح الصلاۃ فی السفینۃ والقاطرۃ والطائرۃ بدون کراھۃ حسبما تیسر۔ للمصلی ، فعن ابن عمر رضی ا للّٰه عنہ قال سئل النبی صلی ا للّٰه علیہ وسلم عن الصلاۃ فی السفینۃ؟ قال صل فیھا قائما إلا أن تخاف الغرق‘‘ رواہ الدار قطنی۔ والحاکم علی شرط الشیخین۔ وعن عبد ا للّٰه بن أبی عتبۃ : قال: صحبت جابر بن عبد ا للّٰه و ابا سعید الخدری وابا ھریرۃ رضی ا للّٰه عنہم فی السفینۃ فصلوا قیاما فی جماعۃ ، امھم بعضھم وھم یقدرون علی الجد رواہ سعید بن منصور)) [1]
[1] بلوغ المرام شارح مولانا صفی الرحمن ، جلد اول ، ص:۲۹۸