کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 280
کرسکتا۔ کیونکہ تردد والی صورت میں بیس دن سے زیادہ قصر کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ۔ واللہ اعلم ۹ ؍ ۱۰ ؍ ۱۴۲۲ھ س: لڑکا شادی کے بعد علیحدہ ہوجائے اور اپنے والدین کو ملنے جائے تو کیا وہ قصر نماز پڑھ سکتا ہے؟ (قاسم بن سرور) ج: مسافر ہے تو قصر پڑھ سکتا ہے، مگر یہ کہ اس نے چار دن سے زیادہ قیام کا ارادہ بنالیا ہو، تو پھر وہاں پہنچتے ہی پوری پڑھے۔ تردد کی صورت ہو تو انیس بیس دن تک قصر کرسکتا ہے۔ ۱۰ ؍ ۳ ؍ ۱۴۲۲ھ س: آج کے دور میں جب دنوں کے فاصلے کم ہوکر گھنٹوں میں ہوگئے ہیں تو ایسے میں قصر نماز کب اور کن حالات میں واجب ہوتی ہے؟ نیز قصر نماز کی حقیقت کیا ہے؟ (جاوید احمد) ج: آج کا دور اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا۔ اس لیے یہ دور والی بات بے معنی ہے۔ اسلام کے احکام قیامت تک کے لیے ہیں ۔ انسان تئیس کلومیٹر یا اس سے زیادہ مسافت والا سفر کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو اپنے شہر یا قصبہ یا دیہات کے مکانوں سے باہر نکل جائے تو نماز قصر کرسکتا ہے۔ انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکل کر مدینہ سے مکہ تک کا سفر کیا۔ آپؐ واپسی مدینہ تک دو دو رکعتیں ہی ادا فرماتے رہے۔[متفق علیہ واللفظ للبخاری]اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب آدمی اپنے گھر سے سفر کی نیت سے نکل پڑے تو وہ مسافر کی تعریف میں آجاتا ہے ، حدود شہر سے نکلنے کے بعد نماز قصر کرسکتا ہے۔ اس اصول میں حالات کی کوئی تخصیص نہیں ۔ ۲۸ ؍ ۲ ؍ ۱۴۲۱ھ س: تین میل یا تین فرسخ پر قصر کرنی چاہیے لیکن بلوغ المرام میں مترجم عبدالتواب صدیقی نے لکھا ہے کہ چار برید پر قصر کرنی چاہیے۔ یہ چار برید کیا ہوتے ہیں اور لکھا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ چار برید سے کم سفر پر قصر نہ کرو۔ (محمد سلیم بٹ) ج: تین میل والی روایت کمزور ہے اور تین میل یا تین فرسخ والی حدیث صحیح مسلم [1] کی ہے۔ البتہ اس میں تین میل میں شعبہ کو شک ہے۔ لہٰذا تین فرسخ ہی یقینی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں ۔ ایک برید بارہ میل کا ہوتا ہے ۔ چار برید والی روایت موقوف ہے، مرفوع نہیں ۔ آپ نے لکھا ہے: ’’ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چار برید سے کم سفر پر قصر نہ کرو۔‘‘ [ اسے دار قطنی نے ضعیف سند سے روایت کیا ہے اور صحیح یہ ہے کہ
[1] کتاب الصلاۃ ؍ صلاۃ المسافرین