کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 279
سکتے ہیں ۔ بیس دن کے بعد نماز پوری پڑھیں ، قصر نہ کریں ۔ رہا آپ کا سوال کہ دورانِ سفر قصر افضل ہے یا اتمام؟ تو قصر افضل ہے ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی ایک سفر میں بھی اتمام ثابت نہیں ۔ ((وَخَیْرَ الْھَدْیِ ھَدْیُ مُحَمَّدٍ صلی ا للّٰه علیہ وسلم )) [1] [ اور تمام طریقوں سے بہتر طریقہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے۔‘‘] واللہ اعلم۔ ۵ ؍ ۱۱ ؍ ۱۴۲۲ھ س: کیا اگر کوئی ڈرائیور جو اپنے گاؤں سے یا اپنے گاؤں سے دور کسی شہر سے گاڑی لے کر دوسرے شہر کی طرف جاتا ہے اور یہ اس کی زندگی کا عام معمول بن چکا ہے تو اپنے گاؤں سے دور شہر میں پھر وہاں سے دوسرے شہر میں جاکر دوگانہ یعنی دو رکعت نماز پڑھے گا یا پوری نماز؟ نیز دورانِ سفر کتنی رکعت پڑھے گا؟ (عبدالستار ولد عبدالرحمن) ج: دورانِ سفر قصر اور اپنے گھر میں پوری پڑھے گا۔ [جس شخص کا کام ہمیشہ سفر کا متقاضی ہو، جیسے ملاح اور جو لوگ جانوروں پر لوگوں کو سواری کراتے ہیں ، تو ان کو قصر کی اور روزہ چھوڑنے کی رخصت دی جائے گی۔ کیونکہ وہ حقیقتاً مسافر ہے اور گاڑیوں کے ڈرائیور حضرات بھی اس حکم میں ہوں گے۔ [2] ۲۱ ؍ ۲ ؍ ۱۴۲۴ھ س: مسافر سفر کی حالت میں کتنے دن قصر کرسکتا ہے؟ (ملک محمد یعقوب) ج: آدمی ۲۳ کلومیٹر یا اس سے زیادہ مسافت والا سفر کرنا چاہتا ہے ۔ شہر یا گاؤں کے مکانوں سے باہر نکل گیا ہے تو قصر شروع ہے۔ [ جمہور علماء کا مذہب یہ ہے کہ جب آدمی آبادی کو چھوڑ دے اور شہر سے نکل جائے تو قصر نماز شروع ہوجائے گی۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سفر میں مدینہ سے نکل جانے سے قبل قصر نہیں کیا۔ ‘‘ ’’ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز مدینہ میں چار رکعت پڑھی اور ذی الحلیفہ میں دو رکعت۔‘‘][3] دورانِ سفر کسی مقام پر چار روز سے زیادہ عرصہ ٹھہرنے کا ارادہ رکھتا ہے تو اس مقام پر پہنچتے ہی اتمام کرے قصر نہ کرے۔ کیونکہ ارادہ بناکر کسی مقام پر دورانِ سفر ٹھہرنے کی صورت میں چار دن سے زیادہ قصر کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ۔ رہی ارادہ نہ بنانے والی صورت متردد ہے۔ آج جاتا ہوں ، کل جاتا ہوں تو اس صورت میں بیس دن سے زیادہ قصر نہیں
[1] مسلم ؍ الجمعۃ ؍ باب تخفیف الصلاۃ والخطبۃ [2] فقہ السنۃ ؍ کتاب الصلاۃ [3] فقہ السنۃ ؍ کتاب الصلاۃ ؍ صحیح بخاری ، حدیث نمبر:۱۰۸۹