کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 273
ذکر فی روایتہ من ھذا الوجہ أن یحیی بن یزید رواہ عن انس قال: سألت أنسا عن قصر الصلاۃ ، وکنت أخرجہ إلی الکوفۃ ، یعنی من البصرۃ فأصلی رکعتین حتی أرجع ، فقال أنس: فذکر الحدیث۔ فظہر أنہ سألہ عن جواز القصر فی السفر لاعن الموضع الذی یبتدأ القصر منہ۔ ثم ان الصحیح فی ذلک أنہ لا یتقید بمسافۃ ، بل بمجاوزۃ البلد الذی یخرج منھا۔ وردہ القرطبی بأنہ مشکوک فیہ فلا یحتج بہ ، فإن کان المراد بہ أنہ لا یحتج بہ فی التحدید بثلاثۃ أمیال فمسلم لکن لا یمتنع أن یحتج بہ فی التحدید بثلاثۃ فراسخ فإن الثلاثۃ أمیال مندرجۃ فیہ ، فیؤخذ بالأکثر احتیاطا۔ الخ (۳؍۱۴ ۔ ۱۵) یقول النور فوری: لاریب أن الشرع یأمرنا بطرح الشک ، والأخذ بالیقین وودع مایریب إلی مالا یریب قال ا للّٰه تبارک وتعالیٰ:﴿ وَلَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْؤلًا ﴾[بنی اسرائیل:۳۶][ ’’ جس بات کی تجھے خبر نہ ہو اس کے پیچھے مت پڑ۔ کیونکہ کان اور آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک سے پوچھ گچھ کی جانے والی ہے۔‘‘ ] ولا ریب أن شک شعبۃ فی حدیث أنس رضی اللّٰه عنہ إنما ھو فی ثلاثۃ أمیال ، لافی ثلاثۃ فراسخ ، فالمتیقن فی الحدیث ھو أن رسول ا للّٰه صلی ا للّٰه علیہ وسلم کان إذا خرج مسیرۃ ثلاثۃ فراسخ صلی رکعتین۔ تو انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی صحیح مسلم اور دیگر کتب والی صحیح مرفوع حدیث سے ثابت ہوا کہ مسافت قصر تین فرسخ ہے تو تین فرسخ سے کم مسافت والے سفر میں نماز قصر کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ۔ رہے بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے کچھ آثار تو وہ حجت و دلیل نہیں ۔ کیونکہ موقوفات دین میں حجت و دلیل نہیں ، اگر کوئی صاحب فرمائیں کہ یہ آثار حکماً مرفوع ہیں تو ان کی یہ بات درست نہیں ، کیونکہ اس مقام پر اجتہاد کو دخل ہے۔ نیز وہ آثار ایک دوسرے سے متعارض ہیں ۔ دو بنیادی باتوں سے پہلی بات مسافت قصر والی مکمل ہوئی۔ دوسری بات مدت قصر والی مندرجہ ذیل ہے: 2۔مسافر آدمی دوران سفر کسی مقام پر چار روز یا چار روز سے کم مدت اقامت کا ارادہ بناکر ٹھہرے تو قصر کرے اور اگر کسی مقام پر چار روز سے زائد مدت اقامت کا ارادہ بنا کر ٹھہرے تو اس مقام پر پہنچتے ہی نماز پوری پڑھے۔ قصر نہ کرے، کیونکہ دورانِ سفر چار روز سے زائد مدت اقامت کا ارادہ بناکر ٹھہرنے کی صورت میں نماز قصر کرنا