کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 251
یا دوسرا۔ اس کی ایک اور دلیل یہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ( بعض دفعہ) رات کو ۹ رکعات ادا فرماتے، آٹھویں رکعت میں تشہد بیٹھتے تو اس میں اپنے رب سے دعا کرتے اور اس کے پیغمبر پر درود پڑھتے، پھر سلام پھیرے بغیر کھڑے ہوجاتے اور نویں رکعت پوری کرکے تشہد میں بیٹھتے تو اپنے رب سے دعا کرتے اور اس کے پیغمبر پر درود پڑھتے اور پھر دعا کرتے، پھر سلام پھیر دیتے۔ [1] اس میں بالکل صراحت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی رات کی نماز میں پہلے اور آخری دونوں تشہد میں درود پڑھا ہے۔ یہ اگرچہ نفلی نماز کا واقعہ ہے۔ لیکن مذکورہ عمومی دلائل کی آپؐ کے اس عمل سے تائید ہوجاتی ہے۔ اس لیے اسے صرف نفلی نماز تک محدود کر دینا صحیح نہیں ہوگا۔ [2] اگر کوئی شخص تشہد کے بعد دعا کرنا چاہے تو بھی جائز ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جب تم دو رکعت پر بیٹھو تو التحیات کے بعد جو دعا زیادہ پسند ہو وہ کرو۔‘‘ [3] اور دعا سے پہلے درود پڑھنا چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا ایک آدمی نماز میں دعا کررہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ اس نے جلدی کی نماز میں پہلے اللہ کی تعریف کرو، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجو، پھر دعا کرو۔‘‘ [4] لہٰذا درمیانی تشہد میں تشہد کے بعد درود اور دعا بھی کی جاسکتی ہے۔ [نمازِ نبویؐ ۱۹۲، ۱۹۳ ، ڈاکٹر سید شفیق الرحمن حفظہ اللہ ] صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم لوگوں نے .....تشہد میں .....آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام بھیجنے کا طریقہ تو جان لیا، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ بتائیں کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود کس طرح بھیجیں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے یا دوسرے تشہد کی قید کے بغیر ارشاد فرمایا کہ تم لوگ ’’ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ …‘‘ [الحدیث] کہا کرو۔ پس اس حدیث میں پہلے تشہد میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنے مشروعیت پر دلیل موجود ہے، امام شافعی رحمہ اللہ کا یہی مذہب ہے، انہوں نے کتاب الام میں اس کی صراحت کی ہے۔ اور امام نووی رحمہ اللہ نے مجموعہ (۳؍۴۶۰) میں لکھا ہے کہ شافعیہ کے یہاں یہی صحیح ہے۔ اور روضہ (۱؍۲۶۳) میں اسی کو اظہر قرار دیا ہے، اور ابن رجب نے طبقات
[1] السنن الکبریٰ ، للبیہقی ، ج : ۲ ، ص: ۷۰۴ ، طبع جدید سنن نسائی مع التعلیقات السلفیہ ، کتاب قیام اللیل ، ج:۱ ، ص: ۲۰۲ ، مزید ملاحظہ ہو: صفۃ صلوٰۃ النبی صلی ا للّٰه علیہ وسلم للالبانی ، ص:۱۴۵ [2] تفسیر احسن البیان ، سورۃ الاحزاب آیت ۵۶ کا حاشیہ [3] نسائی ؍ کتاب التطبیق ؍ باب کیف التشہد الاول ، حدیث:۱۱۶۳ [4] ابو داؤد ؍ ابواب الوتر ؍ باب الدعاء حدیث: ۱۴۸۱ اسے حاکم اور ذہبی نے صحیح کہا ہے۔