کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 249
((عن عبداللّٰہ بن مسعود ، قال: عَلَّمنی رسولُ ا للّٰه صلی ا للّٰه علیہ وسلم التَشَھُّد فی وسَطِ الصلاۃِ وفی آخرھا۔ فکُنَّا نَحْفَظُ عن عبداللّٰہ حین أخبرنا أن رسول ا للّٰه صلی ا للّٰه علیہ وسلم علَّمہ إِیَّاہ ، قال: فکان یقول إذا جَلَسَ فی وَسْطِ الصَّلاۃِ وفِی آخِرِھَا عَلی وَرِکِہ الیُسْری:’’ اَلتَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ وَالصَّلَوٰاتُ وَالطَّیِّبَاتُ السَّلاَمُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ ، وَرَحْمَۃُ ا للّٰه وَبَرَکَاتُہٗ ، اَلسَّلاَمُ عَلَیْنَا وَعَلَی عِبَادِ ا للّٰه الصَّالِحِیْنَ ، أَشْھَدُ أَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلاَّ ا للّٰه وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدً عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ ‘‘ قال: ثم إن کَانَ فِیْ وَسْطِ الصلاۃ نَھَضَ ، حین یَفْرُغَ مِنْ تَشَھُّدِہِ ، وَإنْ کَانَ فِیْ آخِرِھا، دَعَا بعد تَشہُّدِہِ بِمَا شَائَ ا للّٰه أن یَدْعُو، ثم یُسَلِّمُ))[صحیح ، وھذا إسنادہ حسن من أجل ابن إسحاق- وھو محمد - وقد صرح بالتحدیث ، فانتفت شبھۃ تدلیسہ ، وباقی رجالہ ثقات رجال الشیخین۔ یعقوب: ھو ابن ابراھیم بن سعد بن ابراہیم بن عبدالرحمن بن عوف وأخرجہ ابن خزیمۃ (۷۰۲) و (۷۰۸) والطحاوی فی شرح معانی الآثار: ۱؍۲۶۲ من طریق ابن اسحاق ، بھذا الإسناد وقد سلف برقم (۳۶۶۲) من طریق الأعمش ، عن شقیق ، عن ابن مسعود] (محمد اسلم قاضی بن محمد انور قاضی، سیالکوٹ) ج: آپ نے مسند امام احمد رحمہ اللہ تعالیٰ کے حوالہ سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ والی حدیث کی فوٹو کاپی ارسال فرمائی۔ تو اس میں یہ الفاظ آئے ہیں : (( فَکُنَّا نَحْفَظُ عَنْ عَبْدِ ا للّٰه حِیْنَ أَخْبَرَنَا أَنَّ رَسُولَ ا للّٰه صَلَّی ا للّٰه عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَّمَہُ إِیَّاہُ)) اہل علم جانتے ہیں کہ یہ اسود بن یزید نخعی رحمہ اللہ کا کلام ہے، اس کے بعد الفاظ ہیں : (( قَالَ: فَکَانَ یَقُوْلُ اِذَا جَلَسَ الخ)) تو اس عبارت میں کان ، یقول اور جلس والی ضمیریں اگر عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرف لوٹائی جائیں تو سند متصل بنے گی، روایت صحیح ہوگی ، مگر موقوف ہونے کی بناء پر دین میں حجت و دلیل نہیں بن سکتی۔ اور اگر یہ ضمیریں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹائی جائیں تو روایت مرفوع ہوگی، مگر اسود بن یزید نخعی تابعی رحمہ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرنے کی بناء پر مرسل ہوگی اور مرسل روایت صحیح قول کے مطابق حجت نہیں ہوتی ، ضعیف و کمزور ہوتی ہے۔ تو دونوں صورتوں میں یہ روایت درمیانے قعدے میں دُرود نہ پڑھنے کی دلیل نہیں بنتی۔ صحیح ابن خزیمہ کی بطریق عبدالاعلیٰ اسی روایت سے پتہ چلتا ہے کہ مندرجہ بالا دو تفسیروں میں سے پہلی تفسیر