کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 231
س: درج ذیل عبارت کا ترجمہ درکار ہے: (( فان قلت روی فی بعض الاخبار عن وائل انہ قال فجھر بآمین قلت ھذا من جھۃ بعض الرواۃ کانہ نقلہ بالمعنی والصواب رفع بھا صوتہ کما فی اکثر الروایات)) (آثآر السنن ص:۱۲۵) ج: ’’ پس اگر تو کہے بعض خبروں میں وائل رضی اللہ عنہ سے روایت کیا گیا ہے کہ اس نے کہا تو آپ نے آمین جہراً کہی تو میں کہوں گا یہ بعض راویوں کی جانب سے ہے، گویا اس نے بالمعنی نقل کیا اور درست یہ ہے کہ آپ نے آمین کے ساتھ اپنی آواز کو بلندو اونچا کیاجیسے اکثر روایات میں ہے۔‘‘ ۷ ؍ ۱ ؍ ۱۴۲۱ھ س: مقتدیوں کا امام کے پیچھے چھ رکعتوں میں آمین با آواز بلند کہنا اور گیارہ رکعتوں میں آہستہ آواز سے کہنا کس حدیث میں آیا ہے، وضاحت فرمائیں ؟ (عبدالصمد بلوچ) ج: ترمذی میں حدیث ہے: ((عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِیَّ صلی ا للّٰه علیہ وسلم قَرَأَ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلاَ الضَّآلِّیْنَ ، وَقَالَ آمِیْنَ ، وَمَدَّ بِھَا صَوْتَہٗ))[’’ وائل بن حجر سے روایت ہے کہ میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھا ’’ غیر المغضوب علیھم ط ولا الضّآلّین ‘‘پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلند آواز سے آمین کہی۔ [1]ترمذی نے حسن جبکہ ابن حجر اور دار قطنی نے صحیح کہا ہے۔‘‘]اور معلوم ہے کہ سماع و سننا جہری چیز کا ہی ہوتا ہے اور صحیح سنن ابن ماجہ میں ہے: (( عَنْ عَائِشَۃَ عَنِ النَّبِیِّ صلی ا للّٰه علیہ وسلم قَالَ: مَا حَسَدَتْکُمُ الْیَھُوْدُ عَلٰی شَیْئٍ مَّا حَسَدَتْکُمْ عَلَی السَّلاَمِ ، وَالتَّأْمِیْنِ)) [’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس قدر یہودی سلام اور آمین سے چڑتے ہیں ۔ اتنا کسی اور چیز سے نہیں چڑتے۔‘‘ [2]پس تم کثرت سے آمین کہنا۔اسے امام ابن خزیمہ نے صحیح کہا ہے۔ ‘‘]نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (( إِذَا اَمَّنَ القَارِیُٔ فَاَمِّنُوْا))[’’ جب قاری آمین کہے تو تم بھی آمین کہو۔‘‘][3]تو ان تینوں حدیثوں کو ملانے سے مقتدیوں کا امام کے پیچھے چھ رکعتوں میں آمین بآواز بلند کہنا ثابت ہوا۔ باقی گیارہ رکعات میں ذکر و دعاء میں اصول قرآنی پر عمل کرتے ہوئے آمین سراً و خفیۃً ہوگی۔ ۱۶ ؍ ۱۲ ؍ ۱۴۲۳ھ
[1] ترمذی ؍ الصلاۃ ؍ باب ماجاء فی التامین ، ابو داؤد ؍ الصلاۃ ؍ باب التامین وراء الامام [2] ابن ماجہ ؍ اقامۃ الصلاۃ ؍ باب الجھر بآمین [3] بخاری ؍ کتاب الدعوات ؍ باب التأمین