کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 217
ہے کہ ’’ جس نے امام کو حالت رکوع میں پایا اس کے حق میں سورۂ فاتحہ کی قراء ت ساقط ہوجائے گی، کیونکہ اس کے لیے اس کی قراء ت کرنے کا موقعہ و محل باقی نہیں رہا۔‘‘ اس کے برعکس یوں کہنا چاہیے: ’’ چونکہ اس شخص کی نماز سے دو اہم رکن (قیام اور فاتحہ) رہ گئے ہیں ۔ لہٰذا اسے یہ رکعت دوبارہ پڑھنی چاہیے۔‘‘ (۷).....حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں (( لَا تَعُدُ))کے جو الفاظ ہیں ، ان میں تین وجوہ ممکن ہیں ۔ ایک تو وہی جو اکثر محدثین نے بیان کی ہے۔ (( لَا تَعُدُ))یعنی ’’ آئندہ ایسا نہ کرنا۔‘‘ دوسری (( لَا تُعِدْ))یعنی ’’ تو رکعت نہ دہرا (تیری نماز درست ہے۔)‘‘ تیسری (( لَا تَعُدُ)) یعنی ’’ دوڑ کر نہ آیا کر۔‘‘ اب قاعدہ یہ ہے کہ (( اِذَا جَائَ الْاِحْتِمَالُ بَطَلَ الْاِسْتِدْلَالُ)) یعنی ’’ جس دلیل میں کئی احتمال ہوں اسے کسی خاص مسئلے کی دلیل بنانا درست نہیں ہے۔‘‘ لہٰذا ٹھوس دلائل کو نظر انداز کرتے ہوئے متعدد معانی کا احتمال رکھنے والے لفظ (( لَا تَعُدْ))سے استدلال کرنا صحیح نہیں ہے۔ (۸).....معروف ارشادِ نبوی ہے: (( صَلِّ مَا اَدْرَکْتَ وَاقْضِ مَا سَبَقَکَ)) [1] یعنی ’’ جو نماز تو امام کے ساتھ پالے اسے اس کے ساتھ پڑھ اور جو تجھ سے سبقت لے گئی اس کی قضادے۔‘‘ تو جو شخص ایک رکعت کا قیام نہیں پاسکا، ظاہر بات ہے کہ قیام اس سے سبقت لے گیا ہے۔ لہٰذا وہ فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم : (( وَاقْضِ مَا سَبَقَکَ)) کا شرعاً مامور ہے اور اس حکم کی تعمیل کا اس کے علاوہ اور کوئی طریقہ ہی نہیں ہے کہ وہ اس رکعت کو دوبارہ پڑھے، جس سے اس کا قیام اور فاتحہ رہ گئی ہے۔ (۹).....نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک فرمان یہ بھی ہے: (( مَنْ وَجَدَنِیْ قَائِمًا اَوْ رَاکِعًا اَوْ سَاجِدًا فَلْیَکُنْ مَعِیَ عَلَی الْحَالِ الَّتِیْ اَنَا عَلَیْھَا)) [2] یعنی ’’ جو شخص مجھے قیام، رکوع یا سجدے کی حالت میں پائے وہ اسی حالت میں میرے ساتھ شامل ہوجائے۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ کسی مقتدی کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ امام کی مخالفت کرے۔ یعنی امام تو رکوع کررہا ہو اور مقتدی قیام کررہا ہو۔ (۱۰).....ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَمَا اٰتَاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوْہُ ﴾ [الحشر:۷]یعنی ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ تمہیں دیں لے لو۔‘‘ جبکہ آپ کا یہ بھی فرمان ہے: (( صَلُّوْا کَمَا رَاَیْتُمُوْنِیْ اُصَلِّیْ)) [بخاری] یعنی ’’ اس طرح نماز پڑھو جیسے تم نے مجھے پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔‘‘ اور یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ
[1] مسلم ؍ المساجد ؍ باب استحباب اتیان الصلاۃ بوقارٍ وسکینۃ ، ح:۶۰۲ [2] فتح الباری ، الاذان ؍ ۲؍۲۶۹ ؍ ط: السلفیۃ ؍ بحوالہ سنن سعید بن منصور رحمه الله ۔ مصنف ابن ابی شیبۃ: ۱؍۲۵۳