کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 205
الحارث ‘‘کے بعد لفظ ہیں : (( بھذا الحدیث ، والأول أتم قال: وکان رسول ا للّٰه صلی ا للّٰه علیہ وسلم الخ))جو آپ نے نقل نہیں فرمائے اور جو دلالت کررہے ہیں کہ امام صاحب پہلے ایک دفعہ یہ حدیث بیان فرماچکے ہیں تبھی تو فرمارہے (( بھذا الحدیث والأول أتم)) اس کام کا نام بھی خود ہی تجویز فرمالیں ۔ ابن حبان کا یہ اصول ہے کہ جس راوی کے ثقہ یا ضعیف ہونے کا ان کو علم نہ ہو وہ اس راوی کو ثقہ گردانتے، اس راوی کو ثقات میں درج فرماتے، اس راوی کی حدیث کو صحیح سمجھتے اور صحیح میں وارد فرماتے ہیں ۔ یہ اصول انہوں نے خود اپنی کتاب صحیح ابن حبان اور کتاب الثقات میں بصراحت ووضاحت بیان فرمایا ہے، لہٰذا صرف ابن حبان کا کسی راوی کو ثقہ کہنا یا کتاب الثقات میں درج کرنا، اس راوی کی ثقاہت کے اثبات میں ناکافی ہے، بلکہ اس کے مجہول الحال ہونے کی دلیل ہے۔ چنانچہ آپ ثقات ابن حبان اور تقریب التہذیب کے تقابلی مطالعہ سے اس کی بہت سی مثالوں کا مشاہدہ فرماسکتے ہیں ۔ اسی عبدالرحمن بن خلاد کو لے لیجئے! ابن حبان نے ان کو ثقات میں ذکر فرمایا، جبکہ تقریب میں لکھا ہے: (( عبدالرحمٰن بن خلاد الأنصاری مجھول الحال من الرابعۃ)) رہیں عبداللہ بن عباس، ام المؤمنین عائشہ صدیقہ اور ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہم کی روایات جو آپ نے درج فرمائی ہیں ۔ تو وہ موقوف ہیں مرفوع نہیں اور معلوم ہے کہ موقوف روایت دین میں حجت ودلیل نہیں الایہ کہ حکماً مرفوع ہو اور اس مقام پر آپ کی پیش کردہ موقوفات کا حکماً مرفوع ہونا محل نظر ہے کیونکہ یہ مسئلہ مسارح اجتہاد میں شامل ہے۔ ۲۹ ؍ ۱ ؍ ۱۴۲۴ھ س: أم ورقہ والی روایت جو امامت عورت کے بارے میں ہے۔ جس میں دو راوی مجہول الحال ہیں ۔ اس روایت کو اکثر لوگوں نے عورت کی امامت کے بارے میں دلیل بنایا ہے۔ جیسا کہ ’’ نمازِ نبوی ‘‘ (سید شفیق الرحمن تخریج و تنقیح حافظ زبیر علی زئی) میں اس روایت کو صحیح کہا گیا ہے۔ جو ابن خزیمہ کے حوالے سے ہے۔ نیز صحیح ابن خزیمہ ۳؍۸۹ (مطبوعۃ المکتب الإسلامی)میں یہ روایت موجود ہے۔ اور اس کے بارے لکھا ہے۔ ۱۶۷۶۔ اسنادہ حسن، کما بینتہ فی صحیح أبی داؤد (۶۰۵ ، ۶۰۶) محترم حافظ صاحب! اب سوال یہ ہے کہ کیا آثار صحابہ اور موقوف روایات کی بنیاد پر یہ روایت حسن درجہ کو پہنچتی ہے یا نہیں ۔ مہربانی فرماکر تشفی فرمائیں ۔ نیز کیا عورت کو امامت کروانی چاہیے یا نہیں ؟ (ابو عکاشہ عبداللطیف) ج: صحیح ابن خزیمہ والی سند میں بھی دو مجہول الحال راوی لیلیٰ بنت مالک اور عبدالرحمان ابن خلاد موجود ہیں ۔ باقی شیخ البانی رحمہ اللہ وغیرہ کے اس کی سند کو حسن کہنے کی بنیاد لیلیٰ کی عبدالرحمن کی متابعت یا عبدالرحمن کی لیلیٰ کی