کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 204
کا مسئلہ پڑھ کر الجھن کاشکار ہوں ۔ آپ نے ام ورقہ والی روایت کو بوجہ لیلیٰ اور عبدالرحمن بن خلاد کی جہالت ضعیف قرار دیا ہے۔ جبکہ سند میں ’’ لیلیٰ ‘‘ نامی راوی نہیں ہے۔ بلکہ سند یوں ہے: (( حدثنا الحسن بن حماد الحضرمی ثنا محمد بن الفضیل عن الولید بن جمیع عن عبدالرحمٰن بن خلاد عن أم ورقۃ بنت عبد ا للّٰه بن الحارث الخ))[سنن ابی داؤد مع عون ۱؍۲۳۰]نیز صاحب عون المعبود رقم طراز ہیں : (( وقال ابن القطان فی کتابہ الولید بن جمیع وعبدالرحمٰن بن خلاد لا یعرف حالھما قلت ذکرھما ابن حبان فی الثقات واخرج عبدالرزاق فی مصنفہ اخبرنا ابراہیم بن محمد عن داؤد بن الحصین عن عکرمۃ عن ابن عباس قالہ تؤُم المرأۃ النساء تقوم فی وسطھن انتہی۔)) [ عون المعبود مع سنن أبی داؤد ۱؍۲۳۱] حافظ ابن حجر تلخیص الحبیر ۲؍۴۲میں یہ روایت ذکر کرتے ہیں : ۵۹۷ حدیث عائشۃ أنھا أمت نساء ، فقامت وسطھن ، الخ ۵۹۸ حدیث أم سلمۃ أنھا أمت نساء فقامت وسطھن ، الخ تو اب نتیجتاً مسئلہ کیا ثابت ہوگا۔ مذکورہ حوالوں کی طرف رجوع فرماکر کتاب و سنت کی روشنی میں حل بتاکر عنداللہ ماجور ہوں ۔ کہ کیا مسئلہ امامت للنساء ثابت ہے یا نہیں ؟ (ابوعکاشہ) ج: آپ نے سنن ابی داؤد مع عون المعبود ۱؍۲۳۰ سے جو سند نقل فرمائی ہے اس میں تو واقعی لیلیٰ نامی کوئی راوی نہیں ، مگر سنن ابی داؤد مع عون المعبود ۱؍۲۳۰ میں ہی آپ والی سند سے پہلے مذکور سند میں لیلیٰ نامی راوی موجود ہے۔ چنانچہ وہ سند اس طرح ہے: (( حدثنا عثمان بن أبی شیبۃ ، ثنا وکیع بن الجراح ثنا الولید بن عبداللّٰہ بن جمیع ، حدثتنی جدتی وعبدالرحمٰن بن خلاد الأنصاری عن ام ورقۃ بنت نوفل أن النبی صلی ا للّٰه علیہ وسلم )) [الحدیث]ولید بن جمیع کے قول ’’ جدتی ‘‘ سے مراد لیلیٰ ہی ہے۔ آپ نے ابو داؤد کے جس باب اور جس صفحہ میں حدثنا الحسن بن حماد الحضرمی الخ والی دوسرے نمبر پر مذکور سند دیکھی پڑھی آخر اسی باب اور اسی صفحہ میں پہلے نمبر پر مذکور سند حدثنا عثمان بن ابی شیبۃ.....الخوالی بھی تو آپ نے دیکھی پڑھی ہے اس کے بعد آپ کا لکھنا ’’ سند میں لیلیٰ نامی راوی نہیں ہے۔‘‘ کیا بنتا ہے آپ خود ہی غور فرمالیں ۔ پھر آپ والی سند میں ’’ عن أم ورقۃ بنت عبداللّٰہ بن