کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 197
صحیح بخاری ؍ باب الصَّلاَۃِ قَبْلَ الْمَغْرِبِ میں عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے: (( قَالَ: صَلُّوا قَبْلَ الْمَغْرِبِ قَالَ فِی الثَّالِثَۃِ لِمَنْ شَآئَ کَرَاھِیَۃَ اَنْ یَّتَّخِذَھَا النَّاسُ سُنَّۃً)) [1] [’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ فرمایا: ’’ مغرب سے پہلے دو رکعتیں ادا کرو۔ ‘‘ تیسری بار فرمایا: ’’جس کا دل چاہے۔‘‘ یہ اس لیے فرمایا کہ کہیں لوگ اسے سنت نہ بنالیں ۔‘‘]آیا اس مقام پر یہ اصطلاحی معنی بھلا بنتا ہے؟ نہیں ہرگز نہیں ! اس کی مثال یوں سمجھ لیں کہ مکروہ کا فقہاء کی اصطلاح میں معنی وہ کام جس کا نہ کرنا کرنے سے بہتر ہو اور اس کا کرنا گناہ نہ ہو، جبکہ قرآن و سنت میں یہ معنی نہیں چلتا۔ دیکھئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿ کُلُّ ذٰلِکَ کَانَ سَیِّئُہٗ عِنْدَ رَبِّکَ مَکْرُوْھًا﴾ ’’ان سب کاموں کی برائی تیرے رب کے نزدیک مکروہ ہے۔‘‘ [بنی اسرائیل:۳۸]اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( کَرِہَ لَکُمْ قِیْلَ وَقَالَ ، وَاِضَاعَۃَ الْمَالِ ، وَکَثْرَۃَ السُّؤَالِ))’’ بے شک اللہ نے مکروہ جانا قیل وقال ، مال کو ضائع کرنا اور زیادہ سوال۔‘‘ [2] تو غور فرمائیں ادھر مکروہ کا اصطلاحی معنی بھلا چلتا ہے؟ نہیں ہرگز نہیں ۔ حافظ ابن قیم .....رحمہ اللہ تعالیٰ .....نے اپنی مایۂ ناز کتاب اعلام الموقعین میں اہل علم کی ان اخطاء کا تذکرہ فرمایا جو قرآن و سنت کے الفاظ کو اصطلاحی معانی پر محمول کرنے کی بناء پر سرزد ہوئی ہیں ۔ آپ بھی اس بحث کا مطالعہ فرمائیں بہت فائدہ ہوگا۔ ان شاء اللہ سبحانہ وتعالیٰ۔ ۳.....پھر عبداللہ بن مسعود .....رضی اللہ عنہ .....کی اس حدیث میں یہ لفظ بھی موجود ہیں : (( إِنَّ ا للّٰه شَرعَ لِنَبِیِّکُمْ سُنَنَ الْھُدٰی ، وَإِنَّھُنَّ مِنْ سُنَنِ الْھُدٰی وَلَوْ أَنَّکُمْ صَلَّیْتُمْ فِیْ بُیُوْتِکُمْ کَمَا یُصَلِّیْ ھٰذَا الْمُتَخَلِّفُ فِیْ بَیْتِہٖ لَتَرَکْتُمْ سُنَّۃَ نَبِیِّکُمْ ، وَلَوْ تَرَکْتُمْ سُنَّۃَ نَبِیِّکُمْ لَضَلَلْتُمْ)) [3] [’’ بے شک اللہ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہدایت کے طریقے مقرر فرمائے ہیں اور بے شک وہ ہدایت کے طریقوں سے ہیں ۔ اگر تم نماز اپنے اپنے گھروں میں پڑھو گے جیسے (جماعت سے) پیچھے رہنے والا یہ شخص اپنے گھر میں پڑھ لیتا ہے تو تم اپنے نبی کی سنت چھوڑ دو گے اور اگر نبی کی سنت چھوڑ دو گے تو گمراہ ہوجاؤگے۔ ‘‘] دیکھئے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے ترک کو ضلالت قرار دے رہے ہیں ، جبکہ ضلالت معصیت اور ترک فرض کا نام ہے یا فعل حرام کا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَمَنْ یَّعْصِ ا للّٰه وَرَسُوْلَہُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِیْنًا﴾[الأحزاب: ۳۶][’’ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی جو بھی نافرمانی کرے وہ صریح گمراہی میں پڑے گا۔ ‘‘] اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
[1] بخاری ؍ التہجد ؍ باب الصلاۃ قبل المغرب ، مسلم ؍ صلاۃ المسافرین ؍ باب بین کل اذانین صلاۃ [2] بخاری؍کتاب الزکاۃ ؍ باب قول ا للّٰه لا یسألون الناس اِلحافا [3] مسلم ؍ المساجد ؍ باب صلاۃ الجماعۃ من سنن الھُدیٰ