کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 196
آپ کے پاس ہمارا قیام رہا آپ انتہائی رحم دل اور بڑے ملنسار تھے ، جب آپ نے دیکھا کہ ہمارا اشتیاق گھر والوں کی طرف ہے تو ارشاد فرمایا کہ ’’اپنے گھر لوٹ جاؤ اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہو انہیں دین کی تعلیم دو اور نماز پڑھا کرو۔ اذان کا وقت آئے تو تم میں کوئی اذان کہہ دے اور تم میں سے جو بڑا ہو وہ امامت کرائے۔ ۴.....اس روایت اور آپ کی پیش کردہ دیگر روایات کے متعلق زیادہ سے زیادہ جوبات کہی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ روایات جماعت کے افضل ہونے پر ظاہراً یا مفہوماً دلالت کرتی ہیں اور معلوم ہے کہ ظاہر اور مفہوم نص اور منطوق کے سامنے پیش نہیں ہوسکتے۔ مقصد یہ ہے کہ جماعت کے فرض و واجب ہونے کے دلائل فرض وواجب ہونے پر نصا اور منطوقا دلالت کرتے ہیں ۔ اس کی مثال یوں سمجھ لیں کہ اللہ تعالیٰ کا قول: ﴿وَمَا اَنَا بِظَلاَّمٍ لِّلْعَبِیْدِ﴾[قٓ:۲۹][’’ اور نہ میں اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا ہوں ۔ ‘‘] مفہوما تھوڑے ظلم پر دلالت کرتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کا قول : ﴿اِنَّ ا للّٰه لَا یَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ [النساء:۴۰] [’’بے شک اللہ تعالیٰ ایک ذرہ برابر ظلم نہیں کرتے۔ ‘‘]اور اِنَّ ا للّٰه لَا یَظْلِمُ النَّاسَ شَیْئًا﴾[یونس:۴۴][’’ یہ یقینی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ لوگوں پر کچھ ظلم نہیں کرتا۔ ‘‘]دونوں منطوقا تھوڑے ظلم کی بھی نفی کرتے ہیں تو آج تک کسی مسلم نے ﴿ وَمَا اَنَا بِظَلاَّمٍ لِّلْعَبِیْدِ﴾کے مفہوم کو ملحوظ رکھتے ہوئے تھوڑے ظلم کا عقیدہ رکھا؟ نہیں ہرگز نہیں ۔ ۵.....عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی یہ روایت پیش کرتے وقت آپ نے کئی ایک چیزوں کو نظر انداز فرمادیا ہے ترتیب وار پڑھیں : ۱.....عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی یہ روایت مسجد میں نماز پڑھنے سے متعلق ہے باجماعت نماز پڑھنے سے متعلق نہیں ، جیسے کہ روایت کے الفاظ نصاً اور ظاہرا اس پردلالت کررہے ہیں ۔ ۲.....سنن ہدی کے متعلق آپ نے صاحب معارف القرآن کے قول ’’ سنن ہدی سے سب فقہاء سنت مؤکدہ مراد لیتے ہیں ‘‘ کو ملحوظ رکھا، جبکہ یہ اصطلاح فقط فقہائے حنفیہ کی ہے قرآن و سنت اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عبارات میں یہ معنی نہیں چلتا لہٰذا آپ نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ والی اس روایت میں وارد لفظ ’’ سنن الہدیٰ ‘‘ کو فقہائے حنفیہ کی اصطلاح پر محمول کرکے زبردست خطا کی ہے۔ دیکھئے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَیَھْدِیَکُمْ سُنَنَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ﴾[النساء:۲۶][’’ اور تمہیں تم سے پہلے کے (نیک) لوگوں کی راہ پر چلائے۔ ‘‘] آیا ان سنن میں فرائض شامل نہیں ؟ پھر فرائض کی طرف اللہ تعالیٰ نے راہنمائی نہیں کی ؟ غور فرمائیں ۔