کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 195
ہڈی یا دو عمدہ گوشت والی ہڈیاں پائے گا، تو عشاء کی نماز میں ضرور حاضر ہو۔‘‘ ] [1]نقل فرمائی ہے، جس سے انہوں نے نماز باجماعت کا فرض اور واجب ہونا ثابت فرمایا ہے اہل علم نے اور بھی کئی ایک احادیث صحیحہ مرفوعہ سے نماز باجماعت کے فرض وواجب ہونے پر استدلال کیا ہے۔ آپ نے عدم وجوب کے پانچ دلائل نقل فرمائے، مگر ان سے نفس الأمر اور واقع میں عدم وجوب نکلتا نہیں ۔ چنانچہ صاحب منتقی نے باب قائم کیا ہے: (( بَابُ وُجُوْبِھَا وَالْحَثِّ عَلَیْھَا))پھر وجوب جماعت پر دلالت کرنے والی احادیث ذکر کرتے ہیں اور آپ کے پیش کردہ عدم وجوب والے بعض دلائل نقل فرماکر لکھتے ہیں : ((قَالَ الْمُصَنِّفُ رَحِمَہُ ا للّٰه بَعْدَ أَنْ سَاقَ حَدِیْثَ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ مَا لَفْظُہٗ: وَھٰذَا الحَدِیْثُ یَرُدُّ عَلٰی مَنْ اَبْطَلَ صَلاَۃَ المُنْفَرِدِ لِغَیْرِ عُذْرٍ ، وَجَعَلَ الْجَمَاعَۃَ شَرطًا لِاَنَّ المُفَاضَلَۃَ بَیْنَھُمَا تَسْتَدْعِیْ صِحَّتَھُمَا وَحَمْلُ النَّصِّ عَلَی المُنْفَرِدِ لِعُذْرٍ لاَ یَصِحُّ لِاَنَّ الْاَحَادِیْثَ قَدْ دَلَّتْ عَلَی اََنَّ اَجْرَہُ لاَ یَنْقُصُ عَمَّا یَفْعَلُہٗ لَوْلاَ الْعُذْرُ الخ)) [مع نیل الاوطار:۳؍۱۲۹]تو آپ کی نقل کردہ احادیث میں جماعت کے صحت صلاۃ کے لیے شرط ہونے کی نفی ہے جماعت کے فرض و واجب ہونے کی نفی نہیں ، یوں سمجھ لیں جماعت کا نماز کے ساتھ تعلق اذان و اقامت والا ہے ، وضوء و طہارت والا نہیں ۔ جیسے بلاعذر اذان و اقامت ترک کرنے والے مجرم و گناہ گار ہیں گو نماز ان کی ہوجائے گی بالکل اسی طرح جماعت ترک کرنے والے بھی مجرم و گناہ گار ہیں گو نماز ان کی بھی ہوجائے گی۔ یہ جواب آپ کی پیش کردہ تمام روایات میں جاری ہوتا ہے۔ ۱.....اس روایت میں لفظ آئے ہیں : (( اِذَا صَلَّیْتُمَا فِیْ رِحَالِکُمَا))ان کو آپ نے اکیلے نماز پڑھنے پر محمول کرلیا ہے مگر اس کی کوئی دلیل آپ نے بیان نہیں فرمائی ، تو ان کے بلا جماعت نماز پڑھنے کی دلیل درکار ہے۔ ۲.....اس روایت میں لفظ آئے ہیں : (( مِنَ الَّذِیْ یُصَلِّیْھَا ثُمَّ یَنَامُ))جن کو آپ نے بلا جماعت پڑھنے پر محمول کرلیا ہے ، مگر اس کی کوئی دلیل آپ نے پیش نہیں فرمائی۔ تو اس کی بھی دلیل مطلوب ہے۔ ۳.....صاحب نیل کی یہ بات تو ویسے ہی بے بنیاد ہے کیونکہ صحیح بخاری میں ہے مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : (( اَتَیْتُ النَّبِیَّ صلی ا للّٰه علیہ وسلم فِیْ نَفَرٍ مِّنْ قَوْمِیْ ، فَاَقَمْنَا عِنْدَہٗ عِشْرِیْنَ لَیْلَۃً وَکَانَ رَحِیْمًا رَفِیْقًا ، فَلَمَّا رَآی شَوْقَنَا إِلَی اَھٰلِیْنَا قَالَ: اِرْجِعُوْا فَکُونُوْا فِیْھِمْ ، وَعَلِّمُوْھُمْ وَصَلُّوْا ، فَاِذَا حَضَرَتِ الصَّلاَۃُ فَلْیُؤَذِّنْ لَکُمْ اَحَدُکُمْ وَلْیَؤُمَّکُمْ اَکْبَرُکُمْ بابُ مَنْ قَالَ: لِیُؤَذِّنْ فِیْ السَّفَرِ مُؤَذِّنٌ وَّاحِدٌ))میں اپنی قوم کے چند آدمیوں کے ہمراہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور بیس راتیں
[1] صحیح البخاری؍ کتاب الأذان؍ باب وجوب صلاۃ الجماعۃ؍ رقم الحدیث:۶۴۴۔