کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 170
ج: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں فجر کی دو اذانیں ہوتی تھیں ، ایک طلوعِ فجر سے پہلے اور دوسری طلوع فجر کے بعد چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ الباری نے اپنی کتاب ’’الجامع الصحیح ‘‘ میں دو ہی باب باندھے ہیں ۔ پہلا باب ہے بَابُ الْاَذَانِ قَبْلَ الْفَجْرِ اور دوسرا باب ہے ۔ بَابُ الْاَذَانِ بَعْدَ الْفَجْرِ اور دوہی حدیثیں بھی ذکر فرمائی ہیں پہلی حدیث ہے: (( عَنْ عَبْدِ ا للّٰه بْنِ مَسْعُوْدٍ رضی ا للّٰه عنہ عَنِ النَّبِیِّ صلی ا للّٰه علیہ وسلم قَالَ : لَا یَمْنَعَنَّ اَحَدَکُمْ اَوْ اَحَدًا مِّنْکُمْ۔ اَذَانُ بِلَالٍ مِنْ سَحُوْرِہٖ فَإِنَّہُ یُؤَذِّنُ اَوْ یُنَادِیْ بِلَیْلٍ لِیَرْجِعَ قَائِمَکُمْ ، وَلِیُنَبِّہَ نَائِمکُمْ.....الخ)) [آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی بلال رضی اللہ عنہ کی اذان سن کر سحری کھانا ترک نہ کرے کیونکہ وہ رات کو اذان کہہ دیتا ہے تاکہ تہجد پڑھنے والا(آرام کے لیے) لوٹ جائے اورجو ابھی سویا ہوا ہے اسے بیدار کر دے۔] اور دوسری حدیث ہے: (( عَنْ عَائِشَۃَ وَابْنِ عُمَرَ رضی ا للّٰه عنہم اَنَّ رَسُوْلَ ا للّٰه صلی ا للّٰه علیہ وسلم قَالَ : اِنَّ بِلَالًا یُؤَذِّنُ بِلَیْلٍ فَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰی یُؤَذِّنَ ابْنُ اُمِّ مَکْتُوْمٍ)) [ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلال رات کو اذان دیتے ہیں اس لیے تم (روزہ کے لیے) کھاتے پیتے رہو تاآنکہ ابن مکتوم رضی اللہ عنہ اذان دیں ۔ نوٹ:.....رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد رسالت سے ہی سحری کی اذان کہنے کا دستور چلا آرہا ہے۔ جو لوگ اس اذان اول کی مخالفت کرتے ہیں ان کا مؤقف صحیح نہیں ہے ۔ البتہ اسے اذانِ تہجد نہیں خیال کرنا چاہیے کیونکہ اس کا مقصد یوں بیان ہوا ہے کہ تہجد گزار گھر واپس چلا جائے اور سونے والا بیدار ہو کر نماز کی تیاری کر لے اور نہ ہی اسے اذانِ فجر سے بہت پہلے کہنا چاہیے۔] س: فجر کی اذان سے پہلے جو اذان پڑھی جاتی ہے کیا یہ سارا سال پڑھنی چاہیے اور فجر کی اذان سے کتنی دیر پہلے پڑھنی چاہیے اور اس اذان کا مقصد کیا ہے؟ ہمارے ہاں اس مسئلہ پر تین گروہ ہیں : ۱…یہ صرف رمضان المبارک کے مہینے میں اذان پڑھتے ہیں اور فجر کی اذان سے تقریباً ڈھائی گھنٹے پہلے اذان پڑھتے ہیں جب ان سے کہا جائے کہ فجر کی اذان سے اتنی دیر پہلے یہ اذان پڑھنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے