کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 144
رحمہ اللّٰه ص:۱۱۶)) اس کے علاوہ جتنے بھی دلائل فقہ السنہ میں جنبی کے لیے یا حائضہ کے لیے قرآن مجید نہ پڑھنے کے ہیں شیخ موصوف نے اپنی اس کتاب میں ان کارد کیا ہے ۔ (انظر تمام المنۃ ص:۱۱۶ تا ۱۱۹) اب رہا مسئلہ کہ ’’جنبی طاہر نہیں ہوتا ‘‘ تو ’’ان المؤمن لا ینجس ‘‘ کا مفہوم اور کیا ہے ؟والثانی : .....کہ نماز پھر کیوں نہیں پڑھ سکتا اس لیے کہ اسے شرعاً نماز سے روکا گیا ہے جیسا کہ اوپر عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا والی روایت میں یہ بات ثابت ہے۔ (ابو عکاشہ عبداللطیف) ج: مسئلے دو ہیں ۔1۔جنبی و حائضہ کا قرآن پڑھنا۔ 2۔جنبی و حائضہ کا قرآن مجید کو ہاتھ لگانا اور چھونا۔ پہلے مسئلے میں درست اور صحیح بات یہی ہے کہ جنبی اور حائضہ قرآن پڑھ سکتے ہیں کیونکہ ان کے لیے قرأت قرآن کی ممانعت والی کوئی ایک بھی روایت پایۂ ثبوت تک نہیں پہنچتی ۔ اور دوسرے مسئلے میں صحیح اور درست قول ہے کہ جنبی اور حائضہ قرآن مجید کو ہاتھ نہیں لگا سکتے اور نہ ہی چھو سکتے ہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (( لا یمس القرآن إلا طاھر)) اور معلوم ہے کہ جنبی اور حائضہ طاہر نہیں ، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَاِنْ کُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّھَّرُوْا﴾ نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَلَا تَقْرَبُوْا ھُنَّ حَتّٰی یَطْھُرْنَ فَاِذَا تَطَھَّرْنَ رہا آپ کا اشکال تو اس کا جواب ’’احکام و مسائل ‘‘ میں موجود ہے صفحہ ۹۷اور ۹۸ کا ایک دفعہ پھر سے مطالعہ فرما لیں ۔ باقی جو کلام آپ نے شیخ البانی رحمہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ’’تمام المنۃ ‘‘ سے نقل فرمایا ہے تو اس کا جواب انہوں نے خود ہی ’’إرواء الغلیل ‘‘ میں لکھ دیا ہے وہ فرماتے ہیں : (( وعلیہ فالنفس تطمئن لصحۃ ھذا الحدیث لاسیما وقد احتج بہ إمام السنۃ أحمد بن حنبل کما سبق ، و صححہ أیضا صاحبہ الإ مام إسحاق بن راھویہ ، فقد قال إسحاق المروزی فی مسائل الإمام أحمد (ص:۵): قلت (یعنی لأحمد) : ھل یقرأ الرجل علی غیر وضوء؟ فقال : نعم ، ولکن لایقرأ فی المصحف ما لم یتوضأ۔ قال إسحاق : کما قال لما صح قول النبی صلی ا للّٰه علیہ وسلم :لا یمس القرآن إلا طاھر۔ وکذلک فعل أصحاب النبی صلی ا للّٰه علیہ وسلم والتابعون))