کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 143
یقول بإباحۃ المس ألاَ وَھو قولہ صلی ا للّٰه علیہ وسلم لعائشۃ۔ حین طمثت فی الحج اصنعی کل ما یصنعہ الحاج غیر أن لا تطو فی بالبیت ولا تصلی ، فأباح لھا الرسول صلی ا للّٰه علیہ وسلم کل أنواع القرب والعبادات ما عد الصلاۃ والطواف بالبیت لا ن الطواف صلوۃ غیر أنہ اُبیح فیہ للطائف أن یتکلم۔ وبوب الإمام البخاری فی صحیحہ (۱؍۴۰۷) بابٌ تقضی الحائض المناسک کلھا إلا الطواف بالبیت وذکراِحدی روایات الحدیث۔ قد نقل الحافظ ابن حجر فی فتح الباری :۱؍۴۰۷عن ابن رشید تبعاً لإبن بطال۔ قولہ فی مناسبۃ التبویب: ان مرادہ الاستدلال علی جواز قراء ۃ الحائض والجنب۔ بحدیث عائشہ رضی اللّٰه عنہا واستحسنہ الحافظ، ص:۲۸،۲۹۔)) ص:۴۰ میں فرماتے ہیں : ((وذکر البخاری عن ابن عباس أنہ لم یر بالقرأۃ للجنب بأساً۔(مذکورہ تمام حوالے ’’لا یمسہ الا المطھرون‘‘ لمحمد ابراہیم شقرہ کے ہیں ۔) محترم حافظ صاحب ! آپ نے اپنی تحریر ص:۵،۶ میں شیخ البانی رحمہ اللہ کے حوالے سے بھی عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ والی روایت کی صحت نقل کی ہے ۔ یہ بات اپنی جگہ پر درست ہے کہ روایت تو ثابت ہے لیکن یہاں لفظ ’’طاہر ‘‘ سے مراد کیا ہے۔ بذات خود شیخ موصوف رحمہ اللہ فرماتے ہیں : (( قلت : ھذا الجواب مبنی علی حرمۃ مس المصحف من الجنب والمصنف لم یذکر دلیلا علیہ ھٰھنا ولکنہ أشار فی ’’فصل : ما یجب لہ الوضوء۔ أن الدلیل ھو قولہ صلی ا للّٰه علیہ وسلم’’لا یمس القرآن الا طاہر ‘‘ مع أنہ صرح ھناک بأن لفظۃ ’’طاہر ‘‘ مشترک یحتمل معانی شتی وأنہ لا بدمن حملہ علی معنی معین من قرینۃ ثم حملہ ھو علی غیر الجنب بغیرقرینۃ وقد رد دنا علیہ ھناک بما فیہ کفایۃ ، وبینا المراد من الحدیث ھناک ، وأنہ لا یدل علی تحریم مس القرآن مطلقاً ، فراجعہ۔ والبراء ۃ الأصلیۃ مع الذیْن قالو ابجواز مس القرآن من المسلم الجنب ، ولیس فی الباب نقل صحیح یجیز الخروج عنھا۔ فتأمل ، تمام المنۃ للشیخ الالبانی