کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 142
حنبل ، وسئل عن ھذا الحدیث ، فقال : أرجو أن یکون صحیحا۔۱ھ(۱؍۱۵۸۔۱۶۱) تو خلاصہ کلام یہ ہے کہ عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ والی حدیث بطریق سلیمان بن داؤد خولانی حسن صحیح ہے ۔ لہٰذا آپ کا قول ’’تو اب اس روایت سے کیا استدلال جائز ہے؟ ‘‘ بے وزن ، بے قیمت اور بے بنیاد ہے۔واللہ اعلم ۲۹؍۱؍۱۴۲۴ھ س: محترم حافظ صاحب آپ نے اپنی تحریر میں فرمایا ہے کہ ’’تو خلاصہ کلام یہ ہے کہ عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ والی حدیث بطریق سلیمان بن داؤد خولانی حسن صحیح ہے ۔ لہٰذا آپ کا قول .....الخ۔ یہ روایت واقعی ہی حسن ہے ۔ لیکن مزید اس بارے میں کچھ اشکالات ہیں ۔ اُمید ہے آپ ضرور مزید توجہ فرمائیں گے اور بہتر حل پیش کریں گے۔ ان شاء اللہ۔ 1۔محمد ابراہیم شقرہ اپنی کتاب ’’لَا یَمَسُّہُ اِلاَّ الْمُطَھَّرُوْنَ ‘‘ ص:۲۳ میں فرماتے ہیں : (( وجوابنا علی ذلک من وجھین اثنین : الأوّل : ان کلمۃ طاہر تعنی : المؤمن یدل علی ذلک قولہ صلی ا للّٰه علیہ وسلم: ان المؤمن لا ینجس (رواہ البخاری) فیکون المعنی لا یمس المصحف الا مؤمن والمراد : عدم تمکین المشرک من مسہ ، فھو کحدیث : نھی عن السفر بالقرآن الی أرض العدوّ ، من غیر ضرورۃ۔ الثانی: ان النبی صلی ا للّٰه علیہ وسلم کان یکتب الی الملوک الکفار و یضمن کتبہ الیھم ھذہ الآیات من القرآن ولا شک انھم کانوا یمسون ھذا الکتب اویمسھا من یقرأ لھم من بطانتھم ممن ھم علی مثل دینھم)) آخر میں لکھتے ہیں : ((لا یمس القرآن الا طاھر مسلم الا لحاجۃ وضرورۃ فیجوزحینئذٍ لغیر الطاہرالمسلم مسہ۔ ولا فرق بین أن یکون المسلم جنبا و بین ان یکون غیر جنب وبین أن تکون المرأۃ حائضا او نفساء و بین أن تکون غیر ذلک فلا بحظر علیھما مس المصحف فی الحالین لانھا طاہران غیر نجسین)) ص:۲۷ مزید فرماتے ہیں : (( لکن الدلیل الصریح ، الصحیح ، الموضع للحق فی ھذہ المسألۃ ھو مع من