کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 141
أصل یحیی بن حمزۃ ……….....وأما من صححہ فأخذوہ علی ظاھرہ فی أنہ سلیمان بن داؤد.....الخ۔ وقد درست فی کلام ابن عدی أن قول من قال من أھل العلم : إن الحکم لم یضبطہ۔ خطأ ، وأن الحکم بن موسی قد ضبط ذلک ، وسلیمان بن داؤد الخولانی صحیح کما ذکرہ الحکم)) ۳۔ وقال ابن حبان:.....((سلیمان بن داؤد الخولانی ثقۃ)) ۴۔ وقال الدارقطنی:.....((لیس بہ بأس)) تو دیکھئے جناب چار ائمہ محدثین امام احمد بن حنبل ، امام ابو احمد ابن عدی ، امام ابن حبان اور امام دار قطنی۔ رحمہم اللہ اجمعین ۔ کے توثیقِ خولانی میں اقوال اسی میزان میں موجود ہیں جس میزان سے آپ نے تضعیف خولانی میں یحییٰ بن معین اور عثمان بن سعید دارمی کے قول نقل فرمائے ہیں ۔پھر میزان ہی میں ابن عدی کے حوالہ سے ابن معین کے قول کا رد موجود ہے اور ابن عدی کے حوالہ سے گزر چکا ہے کہ عثمان بن سعید دارمی، یحییٰ بن حمزہ عن سلیمان بن داؤد خولانی کی احادیث کو حسان مستقیمہ قرار دیتے ہیں تو آپ کی ان سے نقل کردہ تضعیف بھی کافور ہو گئی تو اب جناب خود ہی انصاف فرمائیں جو کچھ آپ نے سلیمان بن داؤد خولانی کے متعلق لکھا وہ کس زمرہ میں آتا ہے؟ قال الألبانی فی إرواء الغلیل:.....۱۲۲ حدیث أبی بکر بن محمد بن عمرو بن حزم عن أبیہ عن جدہ أن النبی صلی ا للّٰه علیہ وسلم کتب إلی أھل الیمن کتابا۔ وفیہ : لا یمس القران إلا طاھر۔رواہ الأثرم ، والدار قطنی متصلاً ، واحتج بہ أحمد ، وھو لما لک فی المؤطا مرسلاً۔ صحیح روی من حدیث عمرو بن حزم ، وحکیم بن جزام ، وابن عمر ، وعثمان بن أبی العاص۔ أما حدیث عمرو بن حزم فھو ضعیف فیہ سلیمان بن أرقم وھو ضعیف جداً ، وقد أخطأ بعض الرواۃ فسماہ سلیمان بن داؤد وھوالخولانی ، وھو ثقۃ ، وبناء علیہ توھم بعض العلماء صحتہ ، وإنما ھو ضعیف من أجل ابن أرقم ھذا ۔۱ھ وقد رجع الألبانی عن قولہ ھذا حیث قال فی الإرواء نفسہ : وبعد کتابۃ ما تقدم بزمن بعید و جدت حدیث عمرو بن حزم فی کتاب فوائد أبی شعیب من روایۃ أبی الحسن محمد أحمد الزعفرانی ، وھو من روایۃ سلیمان بن داؤد الذی سبق ذکرہ ، ثم روی عن البغوی أنہ قال : سمعت أحمد بن