کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 118
مقام پر ہے: ﴿ وَمَا کَانَ رَبُّکَ نَسِیًّا ط﴾بلکہ نعمتی در آیت: ﴿ اُذْکُرْ نِعْمَتِیْ عَلَیْکَط﴾ [مریم:۶۴]الخ، میں مسیح صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی والدہ پر تمام نعمتیں ذکر ہوگئی ہیں ، خواہ اس مقام پر بعد میں ان کا ذکر آیا ہے ، خواہ ذکر نہیں آیا۔ تو مسیح علیہ السلام کا رفع إلی اللہ تعالیٰ اور نزول دونوں ثابت ہیں ۔ قرانِ مجید میں ہے: ﴿ بَلْ رَّفَعَہُ ا للّٰه إِلَیْہِ ط﴾[النسآء:۱۵۹] [’’ بلکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی طرف اٹھالیا ہے۔‘‘ ]نیز قرآنِ مجید میں ہے: ’’ وَرَافِعُکَ إِلَیَّ ‘‘[آل عمران:۵۵][’’ اور تجھے اپنی طرف اٹھانے والا ہوں ۔‘‘ ]صحیح مسلم میں ہے: (( حَدَّثَنَا قُتَیْبَۃُ بْنُ سَعِیْدٍ قَالَ: نَالَیْثٌ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ أَبِیْ سَعِیْدٍ عَنْ عَطَائِ بْنِ مِیْنَائً عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ ا للّٰه صلی ا للّٰه علیہ وسلم : وَاللّٰہِ لَیَنْزِلَنَّ ابْنُ مَرْیَمَ حَکَمًا عَادِلاً۔)) (الحدیث)[’’ اللہ کی قسم! ابن مریم ضرور ضرور اتریں گے حاکم عادل۔‘‘ ]نیز صحیح مسلم میں ہے: (( حَدَّثَنَا الْوَلِیْدُ بْنُ شُجَاعٍ وَھَارُوْنُ بْنُ عَبْدِ ا للّٰه ،وَحَجَّاجُ بْنُ الشَّاعِرِ قَالُوْا: نَا حَجَّاجٌ وَھُوَ ابْنُ مُحَمَّدٍ عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ قَالَ: أَخْبَرَنِیْ أبُوا الزُّبَیْرِ أَنَّہٗ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ ا للّٰه یَقُولُ: سَمِعتُ النَّبِیَّ صَلَّی ا للّٰه عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ: لاَ تَزَالُ طَائِفَۃٌ مِنْ أُمَّتِیْ یُقَاتِلُوْنَ عَلَی الْحَقِّ ظَاھِرِیْنَ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ قَالَ: فَیَنْزِلُ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ صلی ا للّٰه علیہ وسلم ، فَیَقُوْلُ أَمِیْرُھُمْ۔)) (الحدیث) [1] [ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ ہمیشہ رہے گی، ایک جماعت میری امت سے حق پر قتال کرتے رہیں گے غالب قیامت کے دن تک۔‘‘ آپؐ نے فرمایا: ’’ عیسیٰ ابن مریم نازل ہوں گے تو ان کے امیر کہیں گے، آؤ ہمیں نماز پڑھاؤ تو عیسیٰ ابن مریم فرمائیں گے، نہیں بے شک بعض تمہارا بعض پر امیر ہے۔ اس امت کو اللہ تعالیٰ کے مکرم کرنے کی وجہ سے۔‘‘ ] تو حقیقت یہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں ۔ آخر الأنبیاء ہیں ، جس کا واضح مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر تمام انبیاء علیہم السلام کے سلسلے کو ختم اور بند کردیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اللہ تعالیٰ کسی کو نبوت و رسالت عطا نہیں فرمائے گا۔ باقی رہے مسیح علیہ السلام تو ان کو اللہ تعالیٰ نے نبوت و رسالت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے عطا فرمائی ہے، آپ کے بعدمسیح علیہ السلام کے نزول کے وقت ان کو اللہ تعالیٰ نے نبوت و رسالت عطا نہیں فرمائی۔ خود مسیح علیہ السلام فرماتے ہیں : ﴿ إِنِّیْ رَسُولُ ا للّٰه إِلَیْکُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرَاۃِ وَمُبَشِّرًا م بِرَسُوْلٍ یَّأْتِیْ مِنْ م بَعْدِی اسْمُہٗ أَحْمَدُ ط﴾الآیۃ، تو مسیح عیسیٰ علیہ السلام کا نزول پہلے نبی و رسول اور حالاً امتی
[1] صحیح مسلم ؍ کتاب الایمان ؍ باب نزول عیسیٰ ابن مریم حاکماً بشریعۃ نبینا محمد صلی ا للّٰه علیہ وسلم