کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 116
6۔ مسیح علیہ السلام کو رسالت و نبوت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تقریباً پانچ چھ سو سال پہلے ملی ہے۔قرآنِ مجید میں ہے: ﴿ قَالُوْا کَیْفَ نُکَلِّمُ مَنْ کَانَ فِی الْمَھْدِ صَبِیًّا ط قَالَ إِنِّیْ عَبْدُ ا للّٰه ط﴾ [مریم:۲۹۔۳۰][’’ سب کہنے لگے کہ لو بھلا ہم گود کے بچے سے باتیں کیسے کریں ؟ بچہ بول اٹھا کہ میں اللہ تعالیٰ کا بندہ ہوں ۔‘‘ ] الایۃ۔ نیز قرآنِ مجید میں ہے: ﴿ وَإِذْ قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ یٰبَنِیٓ إِسْرَائِیْلَ إِنِّیْ رَسُولُ ا للّٰه إِلَیْکُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرَاۃِ ، وَمُبَشِّرًا م بِرَسُولٍ یَّأْتِیْ مِنْ بَعْدِی اسْمُہٗ أَحْمَدُط﴾ [الصّف:۶] [’’ اور جب کہا مریم کے بیٹے عیسیٰ نے اے بنی اسرائیل! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں ۔ مجھ سے پہلے کی کتاب تورات کی میں تصدیق کرنے والا ہوں اور اپنے بعد آنے والے ایک رسول کی میں تمہیں خوشخبری سنانے والا ہوں ، جن کا نام احمد ہے۔ ‘‘ ]الآیۃ۔ تو مسیح علیہ السلام نزول فرمائیں گے تو اس وقت بھی آخری نبی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہوں گے، کیونکہ مسیح علیہ السلام فرمارہے ہیں : ﴿وَمُبَشِّرًا م بِرَسُوْلٍ یَّأْتِیْ مِنْ م بَعْدِی اسْمُہٗ أَحْمَدُ ط﴾تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نئے سرے سے کسی نبی و رسول کی بعثت کی تو کوئی ضرورت نہیں ۔ ہاں ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد پہلے نبی و رسول مسیح علیہ السلام کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید و تصدیق کے لیے اور فساد و فتنہ کی سرکوبی کی خاطر نازل کرنے کی ضرورت ہے۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے: (( لَیُوشِکَنَّ اَنْ یَنْزِلَ فِیْکُمُ ابْنُ مَرْیَمَ حَکَمًا عَدْلاً۔)) (الحدیث) [1] [ ’’ عنقریب اتریں گے تم میں ابن مریم حاکم منصف۔‘‘ ] 7۔اس کا جواب نمبر: (۶) میں گزر چکا ہے۔ دیکھئے: (( إِنَّہٗ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ۔)) [2] [’’ میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا۔‘‘] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے اور (( لَیُوشِکَنَّ اَنْ یَنْزِلَ فِیْکُمُ ابْنُ مَرْیَمَ۔)) بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی فرمان ہے دونوں میں کوئی منافاۃ نہیں ، کیونکہ مسیح علیہ السلام نے فرمایا ہے: ﴿ وَمُبَشِّرًا م بِرَسُوْلٍ یَّأْتِیْ مِنْ م بَعْدِی اسْمُہٗ أَحْمَدُ ط﴾ تو : (( إِنَّہٗ لاَ نَبِیَّ بَعْدِی۔)) کا معنی و مفہوم مسیح علیہ السلام نے ﴿وَمُبَشِّرًا م بِرَسُوْلٍ یَّأْتِیْ مِنْ م بَعْدِی اسْمُہٗ أَحْمَدُ ط﴾ فرماکر بیان کردیا ہے ان کے اس بیان کے بعد کسی مزید تشریح کی ضرورت نہیں ۔ 8۔نعمتوں میں سے ہے۔
[1] صحیح البخاری ؍ کتاب احادیث الانبیاء ؍ باب نزول عیسٰی ابن مریم علیہماالسلام [2] بخاری ؍ کتاب الانبیاء ؍ باب ما ذکر عن بنی اسرائیل ، مسلم ؍ کتاب الامارۃ ؍ باب الامر بالوفاء ببیعۃ الخلفاء