کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 109
بن أبی منصور عن دخین الحجری عن عقبۃ بن عامر الجہنی أن رسول ا للّٰه صلی ا للّٰه علیہ وسلم أقبل إلیہ رھط ، فبایع تسعۃ وأمسک عن واحد ، فقالوا: یا رسول ا للّٰه بایعت تسعۃ وترکت ھذا۔ قال: إن علیہ تمیمۃ۔ فأدخل یدہ ، فقطعھا ، فبایعہ ، وقال: من علق تمیمۃ فقد أشرک۔ ‘‘)) [1][’’ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (۱۰) دس آدمی آئے آپ نے (۹) نو کی بیعت کی اور ایک کی بیعت نہ کی۔ تو انہوں نے کہا: آپؐ نے (۹) سے بیعت لی اور اس کو چھوڑ دیا۔ آپ نے فرمایا: ’’اس پر تمیمہ ہے۔ ‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ داخل کیا اور اس کو کاٹ دیا۔ پھر اس سے بیعت لی۔ اور فرمایا: ’’جس نے تمیمہ لٹکایا اس نے شرک کیا۔‘‘ ] پوری حدیث پڑھ جائیے آپ کو اس میں کہیں بھی لفظ تعویذ نظر نہیں آئے گا۔ ہاں ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: ’’ مَنْ عَلَّقَ تَمِیْمَۃً فَقَدْ أَشْرَکَ ‘‘جس نے تمیمہ لٹکایا بلاشبہ اس نے شرک کیا۔ ‘‘ اس میں موجود ہے۔ اب قابل غور چیز یہ ہے کہ تمیمہ کیا ہے؟ جس کے لٹکانے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شرک قرار دیا تو محترم سنیں مشہور و معروف لغت دان مجد الدین فیرزآبادی القاموس المحیط میں لکھتے ہیں : (( والتمیم التام الخلق ، والشدید ، وجمع تمیمۃ کا لتمائم لخرزۃ رقطاء تنظم فی السیر ، ثم یعقد فی العنق))تو جناب من! تمیمہ کا لفظ دھاری دار کرزہ ومنکہ جو چمڑے کی تندی میں پرولیا جاتا، پھر گردن میں باندھ دیا جاتا ہے پر بولا جاتا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس قسم کے خرزات و منکوں ، کوڈوں اور گھک منکوں کے لٹکانے کو شرک قرار دے رہے ہیں نہ کہ کاغذوں یا چمڑوں میں لکھے ہوئے کتاب و سنت کے کلمات لٹکانے کو۔ شاید آپ میری اس ساری بات چیت سے نتیجہ اخذ کرلیں یہ تو تعویذ کا قائل ہوگیا ہے تو محترم دو ٹوک الفاظ میں اپنا عقیدہ لکھ دیتا ہوں تاکہ آپ میرے متعلق کسی بدگمانی میں مبتلا نہ ہوجائیں تو سنیں : ’’ تعویذ کرنا کروانا یا لٹکانا لٹکوانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ۔‘‘ یہ ہے میرا عقیدہ اور وہ تھا آپ کی باتوں کا جواب۔ غفرلنا ا للّٰه العزیز الوہاب۔ 10۔ آپ لکھتے ہیں : ’’ اے نبیؐ! اعلان فرمادیجئے کہ اگر میں نے تم لوگوں سے اس دین پر معاوضہ مانگا تو وہ تمہارا ہی رہا میرا صلہ اور مزدوری تو اللہ کے ذمہ ہے اور وہ ہر چیز پر شاہد ہے۔‘‘ آیت نمبر: ۴۷ سورۂ السبا کا ترجمہ۔ آپ کا کلام ختم ہوا۔ سورۂ سبا کی محولہ بالا آیت کریمہ نقل کیے دیتا ہوں تاکہ آپ اس کے الفاظ کو سامنے رکھ کر اپنے ترجمہ کا جائزہ
[1] مسند أحمد:۴؍۱۵۶