کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 108
بعض بدگمانیاں گناہ ہیں ۔‘‘ ] پھر اللہ تعالیٰ کا ہی فرمان ہے: ﴿ یٰآأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا إِنْ جَآئَکُمْ فَاسِقٌ م بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْا أَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًا م بِجَھَالَۃٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰی مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ ﴾[الحجرات:۶][’’ اے ایمان والو! اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو، ایسا نہ ہوکہ نادانی میں کسی قوم کو ایذا پہنچا دو ، پھر اپنے کیے پر پشیمانی اٹھاؤ۔‘‘ ] پھر کسی نے کسی سے دم کروایا یا دم کرنے والے نے قرآنِ مجید کی کوئی سورت یا آیت یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سکھائی ہوئی دعاء پڑھ کر دم کیا ، اب دم کروانے والے سے پوچھیں آپ نے دم کیوں کروایا؟ تو وہ یہی کہے گا اس سے مجھے اولاد ملے گی، تکلیف دور ہوگی، ا س کاپورا ایمان اس طرف ہوتا ہے کہ اب یہ دم غائبانہ طور پر میری مدد کرے گا۔ اس طرح وہ اپنا الٰہ اس دم کو سمجھے پھرتا ہے۔ آپ جناب کا کیا خیال ہے ایسے انسان نے شرک کیا یا نہ؟ جبکہ یہ الٰہ والی بات آپ یا ہم اس کے سر تھوپ رہے ہیں ۔ ہمیں اس کے اس سلسلہ میں عقیدے کا کچھ علم نہیں ۔ یہ بھی عجیب بات ہے ایک انسان شہد کو شفاء سمجھتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے: ﴿ فِیْہِ شِفَآئٌ لِلنَّاسِ ﴾ [النحل:۶۹][’’ اس میں لوگوں کے لیے شفاء ہے۔‘‘ ] اسی طرح قرآنِ مجید کو شفاء سمجھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا ھُوَ شِفَآئٌ وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ ﴾[بنی اسرائیل:۸۲][’’ یہ قرآن جو ہم نازل کررہے ہیں مومنوں کے لیے تو شفاء اور رحمت ہے۔‘‘ ]﴿ قُلْ ھُوَ لِلَّذِیْنَ آمَنُوْا ھُدًی وَّ شِفَآئٌ ﴾[حٰمٓ السجدۃ:۴۴][’’ آپ کہہ دیجئے کہ یہ ایمان والوں کے لیے ہدایت و شفاء ہے۔‘‘ ]آپ اسے الٰہ بنانے والا گرداننا شروع کردیتے ہیں ۔ یہ کہا ں کا انصاف ہے؟ قرآنِ مجید اور حدیث دم کی صورت میں الٰہ نہیں بنتے۔ تو کاغذ میں لکھنے سے کیونکر الٰہ بن گئے؟ شہد اور دیگر ادویہ میں کوئی شفاء سمجھے تو وہ الٰہ نہیں بنتے تو کاغذ میں لکھے ہوئے قرآنِ مجید میں شفاء سمجھے تو وہ کیسے الٰہ بن گیا؟ پھر کتاب و سنت کا تعویذ کرنے والے اور کروانے والے سبھی تعویذ میں لکھے ہوئے کلمات و کلام کو شفاء دینے والا سمجھتے ہیں ان میں سے کوئی بھی کاغذ یا چمڑے کو شفاء دینے والا بھی نہیں سمجھتا چہ جائیکہ وہ اس کو الٰہ سمجھے یا گردانے لہٰذا کتاب و سنت کے تعویذ باندھنے یا لٹکانے کے متعلق آپ کا لکھنا: ’’ اس طرح اپنا الٰہ اپنے گلے میں لٹکائے پھرتا ہے۔‘‘ سراسر بے بنیاد ہے۔ رہی مسند امام احمد رحمہ اللہ تعالیٰ والی حدیث جس کا ایک ٹکڑا آپ نے نقل فرمایا تو وہ پوری کی پوری مندرجہ ذیل ہے: (( قال الإمام أحمد: ’’ ثنا عبدالصمد بن عبد الوارث ثنا عبدالعزیز بن مسلم ثنا یزید