کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 105
مردوں کے قبروں سے اٹھنے سے پہلے بھی ایک زندگی ہے ، جس میں ثواب و عذاب ہے۔ پھرشہداء کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآنِ مجید اور فرقانِ حمید میں فرماتے ہیں : ﴿ وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ ا للّٰه أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْیَآئٌ وَّلٰکِنْ لاَّ تَشْعُرُوْنَ﴾[البقرۃ:۲؍۱۵۴][’’ اور اللہ تعالیٰ کی راہ کے شہیدوں کو مردہ مت کہو وہ زندہ ہیں ، لیکن تم نہیں سمجھتے۔‘‘ ] نیز فرماتے ہیں : ﴿ وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ ا للّٰه اَمْوَاتًا ط بَلْ اَحْیَآئٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ یُرْزَقُوْنَ o فَرِحِیْنَ بِمَآ اٰتٰھُمُ ا للّٰه مِنْ فَضْلِہٖ لا وَ یَسْتَبْشِرُوْنَ بِالَّذِیْنَ لَمْ یَلْحَقُوْا بِھِمْ مِّنْ خَلْفِھِمْ لا أَلاَّ خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ o یَسْتَبْشِرُوْنَ بِنِعْمَۃٍ مِّنَ ا للّٰه وَ فَضْلٍ لا وَّ اَنَّ ا للّٰه لَا یُضِیْعُ أَجْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ ﴾الایات[آل عمران:۳؍۱۶۹ تا ۱۷۱][’’ جو لوگ اللہ کی راہ میں شہید کیے گئے ہیں ان کو ہرگز مردہ نہ سمجھو، بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس، روزیاں دیئے جاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل جو انہیں دے رکھا ہے اس سے بہت خوش ہیں ۔ اور خوشیاں منارہے ہیں ان لوگوں کی بابت جو اب تک ان سے نہیں ملے ان کے پیچھے ہیں اس پر کہ انہیں نہ کوئی خوف ہے اور نہ غمگین ہوں گے وہ خوش ہوتے ہیں اللہ کی نعمت اور فضل سے اور بے شک اللہ مؤمنوں کے اجر برباد نہیں کرتا۔‘‘ ]۔ تو یہ آیات شہداء کے قتل و شہید ہوجانے کے بعد ان کے زندہ ہونے میں صریح نص ہیں ۔ ’’ بَلْ أَحْیَائٌ ‘‘اور’’ بَلْ أَحْیَآئٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ یُرْزَقُوْنَ ‘‘کے الفاظ واضح طور پر ان کی اس زندگی پر دلالت کررہے ہیں ، جس کے انکار کی کوئی مجال نہیں ۔ نیز صحیح مسلم جلد دوم کی جس حدیث کا آپ حوالہ دے رہے ہیں ، اس کا ابتدائی حصہ اس طرح ہے مسروق تابعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : (( سَأَلْنَا عَبْدَ ا للّٰه عَنْ ھٰذِہِ الْآیَۃِ: وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ ا للّٰه أَمْوَاتًا بَلْ اَحْیَآئٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ یُرْزَقُوْنَ o قَالَ أَمَا اِنَّا سَأَلْنَا عَنْ ذٰلِکَ۔)) [1] [’’ ہم نے عبداللہ رضی اللہ عنہ سے اس آیت کا مطلب پوچھا تو عبداللہ نے فرمایا: ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کا مطلب دریافت کیا تھا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ان کی روحیں سبز رنگ پرندوں کے قالب میں ہیں ۔ عرش کی قندیلیں ان کے لیے ہیں ۔ ساری جنت میں جہاں چاہیں چریں چگیں اور ان قندیلوں میں آرام کریں ۔ ان کی طرف ، ان کے رب نے ایک مرتبہ نظر کی اور دریافت فرمایا کچھ اور چاہتے ہو کہنے لگے۔ اے اللہ! اور کیا مانگیں ساری جنت میں سے جہاں کہیں سے چاہیں کھائیں پئیں اختیار ہے پھر کیا طلب کریں ۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے پھر یہی پوچھا۔ تیسری مرتبہ یہی سوال کیا جب انہوں نے دیکھا کہ بغیر کچھ مانگے چارہ ہی نہیں تو کہنے لگے: اے رب! ہم چاہتے ہیں کہ تو ہماری روحوں کو
[1] مسلم ؍ کتاب الإمارۃ ؍ باب بیان أن أرواح الشہداء فی الجنۃ