کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 104
لَھْوٌ وَّ لَعِبٌ وَّ إِنَّ الدَّارَ الْآخِرَۃَ لَھِیَ الْحَیَوَانُ ﴾ [العنکبوت:۲۹؍۶۴][ ’’ اور دنیا کی زندگی محض کھیل تماشا ہے۔ البتہ آخرت کے گھر کی زندگی ہی حقیقی زندگی ہے۔‘‘ ] اور یقینا دارِ آخرت ہی زندگی ہے، اب اس میں حیاتِ دنیا کے زندگی ہونے کی نفی کردی گئی ہے ، مگر بنسبتِ حیات آخرت ورنہ حیات دنیا زندگی ہے جیسا کہ وَمَا ھٰذِہِ الْحَیَاۃُ الدُّنْیَا الخ سے ثابت ہورہا ہے۔ رہی سورۂ نحل والی آیت ’’ أَمْوَاتٌ غَیْرُ أَحْیَآئٍ ‘‘الخ میں بھی دنیاوی زندگی کی نفی ہے۔ قبر و برزخ والی زندگی کی نفی نہیں ۔ یہ نہیں فرمایا: ’’ أَمْواتٌ فِی الْقُبُورِ غَیْرُ أَحْیَائٍ فِیْھَا ‘‘اور مَا یُفِیْدُ مَفَادَُھَا باقی رہا اللہ تعالیٰ کا فرمان: ﴿ وَمَا یَشْعُرُوْنَ أَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ ﴾خاص شعور و قت بعث کی نفی ہے ہمہ قسم کے شعور کی نفی نہیں ۔ اگر اس سے قبر و برزخ والی زندگی کی نفی نکالی جائے تو لازم آئے گا دنیا والی زندگی کی بالکلیہ نفی ہوجائے، کیونکہ دنیاوی زندگی رکھنے والوں کو بھی کوئی شعور نہیں ۔ وہ کب اٹھائے جائیں گے تو دنیاوی زندگی والے دنیاوی موت سے پہلے ہی دنیاوی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے تو ظاہر ہے کہ یہ لازم تو محال ہے تو ثابت ہوا: ’’ وَمَا یَشْعُرُوْنَ أَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ ‘‘سے قبر و برزخ والی زندگی کی نفی نہیں نکلتی۔ 8۔آپ لکھتے ہیں : ’’ حدیث کے مطابق شہداء کی روحوں کو قبض ہونے کے بعد شہداء کی فرمائش کے باوجود دنیا میں نہیں لوٹایا گیا۔‘‘ تو محترم دنیا میں لوٹانے کی بات اس مقام پر نہیں ہورہی۔ بات یہ ہورہی ہے کہ اصحابِ قبور کی قبر و برزخ میں دنیا والی زندگی ہے تو اس حدیث سے شہداء کو دنیا والی زندگی ملنے کی نفی نکلتی ہے۔ جس کے ہم بھی بفضل اللہ تعالیٰ و توفیقہ قائل و معتقد ہیں اور اس حدیث سے شہداء کی قبر و برزخ والی زندگی کی نفی نہیں نکلتی جو آپ اس سے خواہ مخواہ کشید کررہے ہیں ۔ پھر آپ فرماتے ہیں : ’’ دنیا میں نہیں لوٹایا گیا۔‘‘ جبکہ آپ قبر و برزخ والی زندگی پر کلام فرمارہے ہیں ۔ چنانچہ آپ پہلے لکھ چکے ہیں : بقول آپ کے’’ نبیؐ مدینہ والی قبر میں زندہ ہیں ۔‘‘ نیز لکھ چکے ہیں : ’’ آپ نبیؐ کو مدینہ والی قبر میں زندہ کہہ کر …الخ۔‘‘ تو برائے مہربانی آپ کوئی ایسی آیت یا حدیث پیش فرمائیں جس میں یہ ہو کہ قبروں والے قبروں میں قبر والی زندگی کے ساتھ بھی زندہ نہیں دنیا میں کسی کے نہ لوٹانے والی احادیث یا آیات سے یہ بات نہیں نکلتی۔ سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ والی حدیث میں قیامت کے دن سے پہلے عمر کی تکمیل اور وفات کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا تذکرہ نیز شہداء اور عام مومنین کے گھروں کا تذکرہ گزرچکا ہے۔ پھر قیامت کے دن سے پہلے کذاب، زانی ، سود خور اور عالم بے عمل کی سزاؤں کا تذکرہ بھی ہوچکا ہے۔ تو ثابت ہوا دنیاوی زندگی ختم ہوجانے کے بعد قیامت کو