کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 101
کو ایک بہترین اور خوبصورت گھر میں داخل فرمایا۔ اس جیسا خوبصورت گھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی نہ دیکھا ، اس گھر میں بوڑھے، جوان ، عورتیں اور بچے ہیں ۔ یہ گھر عام ایمان والوں کا گھر ہے۔ (۸)پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پہلے گھر سے بھی اوپر ایک اور گھر دکھایا اور اس میں داخل فرمایا جو پہلے گھر سے زیادہ خوبصورت اور زیادہ فضیلت والا ہے۔ یہ شہداء کا گھر ہے۔ اس ساری حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ انسان نیک ہو، خواہ بد۔ تکمیل عمر اور وفات کے بعد اسے ایک مقام و گھر ملتاہے۔ نیک ہے تو اچھا گھر اور بد ہے تو برا گھر اور واضح رہنے یہ بھی ایک قسم کی زندگی ہے، ورنہ نیک کو ثواب بتفاوت درجات اور بد کو عذاب بااختلاف درکات چہ معنی دارد؟ آپ لکھتے ہیں : ’’ بقول آپ کے نبیؐ مدینہ والی قبر میں زندہ ہیں ، لیکن بخاری …الخ ‘‘ ابوبکر صدیق اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ والے اس واقعہ سے آپ نکال رہے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبر میں زندہ نہیں ۔ حالانکہ اس واقعہ سے یہ بات نہیں نکلتی، کیونکہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا یہ خطبہ، خطبہ کے اندر: ﴿ وَمَا مُحَمَّدٌ إِلاَّ رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ﴾الخ [آل عمران:۱۴۴][’’ محمد صلی اللہ علیہ وسلم صرف رسول ہی ہیں ان سے پہلے بہت سے رسول ہوچکے ہیں ، کیا اگر ان کا انتقال ہوجائے؟ ‘‘]اور ﴿ إِنَّکَ مَیِّتٌ وَّإِنَّھُمْ مَّیِّتُوْنَ﴾[الزمر: ۳۹ ؍ ۳۰][ ’’ یقینا آپ کو بھی موت آئے گی اور یہ سب بھی مرنے والے ہیں ۔‘‘ ]کی تلاوت اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا فرمانا: (( أَیْقَنْتُ أَنَّہٗ قَدْمَاتَ)) مجھے یقین ہوگیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے ہیں ۔ یہ سب باتیں اس وقت کی ہیں جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت تو ہوچکے تھے، مگر ابھی قبر میں دفن نہیں کیے گئے تھے۔ جس کا صاف اور سیدھا مطلب ہے کہ ابوبکر صدیق ، عمر بن خطاب اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم کا اس موقع پر اجماع و اتفاق ہوا تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیاوی زندگی کے ختم ہونے پر اجماع و اتفاق تھا، کیونکہ قبر میں تو ابھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم داخل ہی نہیں کیے گئے تھے۔ پھر اس واقعہ سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جو آیات تلاوت فرمائیں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موت اور دنیاوی زندگی کی نفی پر تلاوت فرمائیں تو اس واقعہ سے یا ان آیات سے قبر والی زندگی کی نفی نکالنا درست نہیں ۔ پھر سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ والی درج بالا حدیث سے قبر و برزخ والی زندگی ثابت ہوچکی ہے۔ آپ مزید لکھتے ہیں :’’ جب سارے صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجماع ہوگیا کہ نبی کو موت آچکی ہے اور قیامت سے پہلے دوبارہ زندہ بھی نہیں کیے جائیں گے۔ تو نبی کو مدینہ والی قبر میں زندہ کہہ کر قرآن و حدیث کا کفر کیوں کرتے ہیں ؟ کیا