کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 83
ج: آپ نے جو تحریر ارسال فرمائی اس کا جواب مندرجہ ذیل ہے بتوفیق اللہ سبحانہ وتعالیٰ وعونہ ۔ (۱) صاحب تحریر لکھتے ہیں ’’آپ لوگ وضوء میں دونوں پاؤں کے مسح کے خلاف اور پاؤں دھونے کے قائل ہیں ۔ قرآن کریم کی سورۃ المائدہ کی آیت وضوء پر گرامر کی بحث کرتے ہوئے یہ عذر کرتے ہیں کہ آیت وضوء میں ’’بِرَؤُسِکُمْ‘‘[1] میں سین کے نیچے زیر جوار کی ہے لیکن فخر الدین رازی نے اس عذر کو باطل قرار دیا ہے ‘‘ الخ ۔ تو محترم آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہم ’’بِرؤوسکم میں سین کے نیچے زیر جوار کی ہے‘‘ والا عذر بالکل پیش نہیں کرتے اور نہ ہی فخر الدین رازی نے اس سین کے نیچے والی زیر کو جوار کی زیر سمجھا نہ کسی سے اس کو نقل کیا اور نہ ہی اس سین کے نیچے والی زیر کو باطل قرار دیا نہ ایک وجہ سے اور نہ ہی کئی وجوہ سے صاحب تحریر پر لازم ہے کہ فخر الدین رازی کی وہ عبارت پیش فرمائیں جس میں انہوں نے ’’بِرُئُ وْسِکُمْ میں سین کے نیچے زیر جوار کی ہے‘‘ والے عذر کو کئی وجوہ سے باطل قرار دیا ہے پھر تاکید ہے کہ فخر الدین رازی کی ایسی عبارت ضرور نقل کریں ۔ (۲) صاحب تحریر لکھتے ہیں ’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب نواسے جنہوں نے اپنے نانا رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن سنا اور پڑھا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے وضوء سیکھا وہ قرآن کی آیت وضوء میں ’’ اَرْجُلِکُمْ‘ ‘ پڑھتے تھے یعنی حسنین علیہما السلام کی قرأت میں لام پر زبر نہیں بلکہ زیر ہے دیکھئے تفسیر ’’جامع البیان‘‘ علامہ ابن جریر‘‘ الخ ۔ تفسیر جامع البیان لابن جریر الطبری کو دیکھا تو اس میں لکھا ہے ’’ حدثنی الحسین بن علی الصدائی ، قال : ثنا أبی ، عن حفص الغاضری ، عن عامر بن کلیب ، عَنْ أَبِی عَبْدِ الرَّحمٰنِ ، قَالَ : قَرَأَ عَلَیَّ الْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ رِضْوَانُ اللّٰهِ عَلَیْہِمَا ، فَقَرَئَ ا (وَأَرْجُلِکُمْ إِلَی الْکَعْبَیْنِ) فَسَمِعَ عَلِیٌّ رضی للّٰهُ عنہ ذٰلِکَ ، وَکَانَ یَقْضِیْ بَیْنَ النَّاسِ ، فَقَالَ : وَأَرْجُلَکُمْ، ہٰذَا مِنَ المُقَدَّمِ وَالْمُؤَخَّرِ مِنَ الْکَلاَمِ ۔ ۱ھ‘‘۔ صاحب تحریر نے ’’فَسَمِعَ عَلِیٌّ رضی للّٰهُ عنہ ذٰلِکَ‘‘ الخ والے نہ تو لفظ ہی نقل کئے ہیں اور نہ ہی ان الفاظ کا ترجمہ ذکر کیا ہے ان الفاظ کا مطلب ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے اس کو (حسنین رضی اللہ عنہما کے أَرْجُلِکُمْ کو لام کی زیر کے ساتھ پڑھنے کو) سن لیا حالانکہ وہ لوگوں کے درمیان فیصلہ فرما رہے تھے تو انہوں نے فرمایا : ’’وَأَرْجُلَکُمْ‘‘ (لام کی زبر کے ساتھ) یہ مقدم اور مؤخر کلام سے ہے (’’وَأَرْجُلَکُمْ إِلَی الْکَعْبَیْنِ‘‘ ’’وَامْسَحُوْا بِرُؤُسِکُمْ‘‘ پر مقدم ہے مؤخر ذکر ہوا ہے اور ’’وَامْسَحُوْا بِرُؤُسِکُمْ‘‘ ’’ وَأَرْجُلَکُمْ إِلَی الْکَعْبَیْنِ‘‘ سے مؤخر ہے مقدم ذکر ہوا ہے) تو علی رضی اللہ عنہ نے حسنین رضی اللہ عنہما کے زیر پڑھنے پر وَأَرْجُلَکُمْ زبر کے ساتھ پڑھ کر لقمہ دیتے ہوئے ان کی
[1] یہ لفظ صاحب تحریر نے اسی طرح لکھا ہے ۔