کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 82
عرب کے کلام میں ہر گز نہیں آتی اور رہی قرأت بالنصب یہ بھی مسح ہی واجب کرتی ہے ۔ مزید اطمینان کے لیے تفسیر خازن (لباب التاویل) مطبوعہ مطبعۃ المکتبۃ التجارتیہ الکبریٰ مصر الجزء الثانی ص ۱۶ پر دیکھیں ۔ فتوحات مکیہ مطبوعہ مصر جلد اول ص۴۴۸ شیخ محی الدین ابن عربی لکھتے ہیں کہ اَرْجُلَکُمْ کے لام پر زَبر اس کو حکم مسح سے خارج نہیں کرتی ۔ پس تحقیق یہ واؤ معیت کا قرار پائے گا اور معیت کا واؤ نصب دیتا ہے جیسا کہ بولتے ہیں ’’قَامَ زَیْدٌ وَعَمْرًا‘‘ یعنی کھڑا ہوا زید ساتھ عمر کے اسی طرح اَرْجُلِکُمْ بِرُؤُسِکُمْ کے ساتھ حکم مسح میں آیا ہے ۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب نواسے جنہوں نے اپنے نانا رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن سنا اور پڑھا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے وضوء سیکھا وہ قرآن کی آیت وضوء میں ’’اَرْجُلِکُمْ‘‘ پڑھتے تھے یعنی حسنین علیہما السلام کی قرأت میں لام پر زبر نہیں بلکہ زیر ہے ۔ دیکھئے تفسیر ’’جامع البیان‘‘ علامہ ابن جریر مطبوعہ دار المعارف الجزء العاشر (صحابہ رضی اللہ عنہم بھی حسنین علیہما السلام کی طرح مندرجہ بالا کے مطابق تھے) ۔ تفسیر ’’فتح البیان‘‘ علامہ اہل حدیث نواب صدیق حسن بھوپالی قنوجی مطبوعہ صدیقی بھوپال الجزء الاوّل تفسیر سورۃ المائدہ ص ۲۹۳--- علاوہ اسی سلسلہ میں اردو تفسیر ترجمان القرآن مطبوعہ صدیقی لاہور جلد ۳ ص ۸۴۲ -- اور تفسیر کبیر فخر الدین رازی مطبوعہ مصر جلد ۳ ص ۳۶۸ میں صحابہ رضی اللہ عنہم اور امام باقر علیہ السلام کے نزدیک پاؤں کا مسح ہی واجب ہے ۔ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے پاؤں کے مسح کا حکم دیا (نمبر۱) اصابہ ۔ فی تمییز الصحابہ حافظ ابن حجر عسقلانی مطبوعہ مصر جلد اوّل ص ۱۹۲ ترجمہ تمیم بن زید (نمبر۲) تفسیر ابن جریر طبری مطبوعہ دار المعارف مصر جلد نمبر ۱۰ ص ۷۵ (نمبر۳) شرح معانی الآثار طحاوی مطبع الاسلامیہ لاہور ۔ جلد اول ص ۲۱ (نمبر۴) نیل الاوطار شوکانی جلد اول ص ۲۱۴ (نمبر۵) کنز العمال علامہ علی متقی بن حسام الدین مطبوعہ دائرۃ المعارف حیدر آباد دکن مسند تمیم بن زید حدیث نمبر ۲۱۹۳ ص ۱۰۲ ۔ (نمبر۶) کنز العمال مطبوعہ دائرۃ المعارف حیدر آباد دکن جلد ۵ ، مسند علی علیہ السلام ص ۱۴۷ حدیث نمبر ۲۴۵۳ اور مسند امام احمد بن حنبل مطبوعہ مصر جلد اول ص ۱۱۶ ۔ مسح کا مزید ثبوت عمدۃ التفسیر حافظ ابن کثیر مطبوعہ دار المعارف مصر جلد ۴ ص ۹۷ اور تفسیر معالم التنزیل برحاشیہ تفسیر خازن مطبعۃ المکتبۃ التجاریۃ الکبریٰ مصر الجزء الثانی ص ۱۶ میں دیکھئے ۔
ضروری گزارش : رفیع الدین محدث دہلوی نے اپنے ترجمہ قرآن میں ’’دھوؤ‘‘ یا دھو لو کا لفظ ہر گز نہیں لکھا لیکن اس امر کو ملحوظ رکھا جائے کہ ۔ ۶۷ء سے کم از کم چالیس برس پہلے کا چھپا ہوا ترجمہ رفیع الدین محدث دیکھا جائے ۔ خیال رہے اگر وضوء صحیح نہ کیا جائے نماز نہ ہو گی ۔ ایک بات یاد رہے کہ ہم پاؤں پہلے اس وقت دھوتے ہیں جب ہمیں شک ہو کہ ناپاک ہیں پھر خشک کر کے مسح کرتے ہیں۔ یہ تو تھیں آپ لوگوں کی کتابیں اگر بھائی صاحب تسلی نہ ہو تو جواب ضرور دیں ۔ اور مجھے قوی امید ہے کہ اس تحقیق کے بعد آپ مذہب حقہ امامیہ قبول فرمائیں گے ۔ اور اپنی آخرت سنواریں گے۔ بھائی صاحب اگر آپ حق تلاش کر لیں تو میرے حق میں ضرور دعا کریں۔
علی عباس جی ٹی روڈ گوجر خان 24/4/97