کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 61
میں مستحضر کر کے اور اس سے خطاب کر کے عالم شوق اور وارفتگی میں باتیں کرتا ہے ، خطاب کرنے والے کا یہ عقیدہ نہیں ہے کہ حضور عالم الغیب ہیں یا حاضر وناظر ہیں اور دور ونزدیک سے باتیں سننے پر قادر ہیں تو اس نعرے کو عشق ومحبت کا ایک مظہر سمجھا جا سکتا ہے اور اس بناء پر اسے جائز تسلیم کیا جا سکتا ہے لیکن اگر کہنے والے کا عقیدہ ہی یہ ہے کہ آپ عالم الغیب ، حاضر وناظر اور ہماری فریادیں سننے پر قادر ہیں تو یہ کہنا خوش نصیبی نہیں انتہائی بدنصیبی ہے ۔ اسی طرح یقینا وہ شرک وبدعت کا ارتکاب کرتا ہے ، جسے خوش نصیبی وہی شخص سمجھ سکتا ہے جو توحید وسنت سے ناآشنائے محض ہو ۔
(۲) اسے اہلحدیث اسی بناء پر شرک وبدعت سے تعبیر کرتے ہیں کہ اس میں عقیدے کی وہی خرابی پائی جاتی ہے ، جو انسان کو شرک تک لے جاتی ہے جس طرح کہ فی الواقع اب اس کا ظہور شروع ہو گیا ہے اور اب ’’یا رسول اللہ‘‘ سے معاملہ بڑھ کر ’’یا رسول اللہ مدد‘‘ تک پہنچ گیا ہے ۔ اس لیے اہلحدیث شرک پر مبنی خود ساختہ نعروں کا انکار کر کے ’’قرآن وحدیث کے منکر‘‘ نہیں بنتے ، بلکہ قرآن وحدیث کے محافظ ہیں ۔ فللّٰہ الحمد علی ذالک
(۳) اسٹکر چھاپنے والوں نے دعویٰ تو یہ کر دیا ہے کہ حوالہ غلط ثابت کرنے والے کو منہ مانگا انعام دیا جائے گا۔ لیکن ہم پورے یقین سے کہتے ہیں کہ انہوں نے ’’الادب المفرد‘‘ ’’تحفۃ الذاکرین‘‘ شوکانی - کتاب الاذکار ’’نووی - عمل الیوم واللیلۃ‘‘ ابن السنی - ’’فتح الباری‘‘ اور مصنف ابن ابی شیبہ ، ان چھ کتابوں کا حوالہ دیا ہے لیکن کسی بھی کتاب میں کسی بھی محدث کے یہ الفاظ نہیں دکھائے جا سکتے کہ ’’جب تکلیف اور پریشانی ہو تو پکارو یا محمد ، یا رسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم ‘‘ پہلی چار کتابوں میں صرف وہ واقعہ بیان ہوا ہے جو پہلے گزر چکا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پیر سن ہو گئے تو کسی نے کہا کہ آپ ایسے شخص کو یاد کریں جس سے آپ کو سب سے زیادہ محبت ہو تو انہوں نے کہا ’’محمد‘‘ یا ’’یا محمد‘‘۔
اس کے تحت انہوں نے باب بھی جو باندھا ہے وہ بھی یہ ہے کہ ’’جب کسی کے پیر سن ہو جائیں تو وہ کیا کہے؟‘‘ کسی کتاب میں یہ الفاظ نہیں ہیں کہ جب تکلیف اور پریشانی ہو تو پکارو یا محمد ۔یا رسول اللہ ۔ اسی طرح آخری دو کتابوں میں صرف وہ واقعہ بیان ہوا ہے جس میں مالک الدار کے حوالے سے خواب میں ایک شخص کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس جانے کے لیے کہا گیا ہے اور جس کی بابت ہم پہلے بیان کر آئے ہیں کہ سنداً یہ واقعہ ہی صحیح نہیں ہے علاوہ ازیں یہ صحیح احادیث میں بیان کردہ طریقے کے بھی خلاف ہے ۔ گویا ان دو کتابوں میں بھی یہ الفاظ نہیں ہیں کہ’’جب تکلیف اور پریشانی ہو تو پکارو یا محمد ، یا رسول اللہ‘‘
یعنی چھ کتابوں کے حوالے دئے گئے ہیں اور کسی ایک کتاب میں بھی مذکورہ الفاظ نہیں ہیں ۔ اس لیے ہم اسٹکر