کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 602
محترم حافظ صاحب ! اگر آپ سوال درج کرنے کے بعد کچھ مزید غوروفکر کر کے اضافہ کرتے ہیں تو اس اضافے یا ترمیم کے جواب کا پابند میں کیسے ہو سکتا ہوں پھر جبکہ آپ اپنے دوسرے مکتوب میں بندہ عاجز سے مندرجہ ذیل الفاظ میں مطالبہ کر رہے ہیں ۔ ’’جبکہ آپ نے میرے پہلے قول …… پر کچھ نہیں لکھا ۔
محترم میں نے جب آپ کے پہلے قول کا جواب تحریر کر کے آپ کی خدمت میں بھیجا ہے تو آپ فرما رہے ہیں کہ میرا تو یہ سوال ہی نہیں ۔ آپ جناب اپنے مخاطب کو جب فیل ہی کرنا چاہتے ہیں تو پھر میں خود ہی اپنے فیل ہونے کا اعلان کر کے آپ کی کیوں نہ مدد کروں ؟نوٹ : براہ کرم آپ جناب اپنے پہلے اور میرے پہلے اور تیسرے مکتوب کی فوٹو اسٹیٹ بھیج کر شکریہ کا موقعہ دیں ۔ آپ کا شاگرد : امان اللہ مسلم آئرن سٹور چونیاں روڈ حجرہ شاہ مقیم ضلع اوکاڑہ ۸/۴/۱۴۱۳ ھ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
از عبدالمنان نور پوری بخدمت جناب امان اللہ صاحب حفظہما اللہ تعالیٰ وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امابعد ! اس فقیر الی اللہ الغنی نے اپنے تیسرے مکتوب میں لکھا’’ آپ نے اپنے تیسرے مکتوب میں میرا سوال اس طرح نقل کیا ہے ’’کیا جماعت المسلمین کی دعوت واقعی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت ہے ؟‘‘ تو محترم میرا سوال یہ نہیں میرا سوال وہی ہے جو میں اپنے پہلے اور دوسرے مکتوب میں لکھ چکا ہوں چنانچہ ایک دفعہ اسے پھر دہرا دیتا ہوں تو سنیں میرا سوال یہ ہے ’’آپ اس بات کی وضاحت فرمائیں آیا جماعت المسلمین رجسٹرڈ میں شمولیت کی دعوت واقعی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت ہے ؟‘‘ تو آپ سے گزارش ہے آپ میرے اس سوال کا جواب دیں اور یہ سوال آپ کے مجھے جماعت المسلمین میں شمولیت کی دعوت دینے کی وجہ سے کیا گیا ہے آپ محسوس نہ فرمائیں ۔ اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الاِسْلاَمُ [1]
یہ تو تھا میرا تیسرا مکتوب جس کے جواب میں آپ اپنے چوتھے مکتوب میں لکھتے ہیں ’’آپ کے سوالات میں تضاد پیدا ہو چکا ہے‘‘ تو جناب گزارش ہے کہ میرے سوال کی تینوں مکتوبات میں درج شدہ عبارات میں کوئی تضاد نہیں دیکھئے پہلے مکتوب میں سوال کی عبارت ہے ’’جماعت المسلمین میں شمولیت کی دعوت ۔ غور فرمائیں یہ دعوت اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت ہے ؟‘‘ دوسرے مکتوب میں سوال کی عبارت ہے ’’آپ اس بات کی وضاحت فرمائیں آیا جماعت المسلمین رجسٹرڈ میں شمولیت کی دعوت واقعی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت ہے ؟‘‘
[1] [آل عمران ۱۹ پ۳]