کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 594
اس تقریر استدلال میں تین جملے ہیں ۔( i)۔ان مثالوں پر عمل کرنا تو سب لوگوں پر واجب ہے ۔ (ii)۔ ان کو سمجھنا صرف علم والوں کا کام ہے ۔ iii))۔ دوسروں (بے علم لوگوں) پر واجب ہے کہ ان سے پوچھ کر ان پر عمل کریں جملہ نمبر۲ پر تو اللہ تعالیٰ کا قول﴿وَمَا یَعْقِلُہَا اِلاَّ الْعَالِمُوْنَ﴾ دلالت کرتا ہے البتہ اس آیت مبارکہ میں کوئی ایک لفظ بھی نہیں جو جملہ نمبر۱ ونمبر۳ پر دلالت کرے لہٰذا قاضی صاحب کا اس آیت سے استدلال سراسر غلط ہے ہاں اس آیت کریمہ میں جس چیز کی خبر دی گئی ہے وہ صرف اور صرف اس قدر ہے کہ ہم ان مثالوں کو لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں اور ان کو صرف جاننے والے سمجھتے ہیں ۔
(۸) اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ باعلم تو ان مثالوں کو سمجھتے ہیں اور بے علم ان مثالوں کو نہیں سمجھتے ۔ جیسا کہ آیت میں موجود قصر سے واضح ہے تو اب ہم پوچھتے ہیں ۔ بے علم جن کو حضرت قاضی صاحب اور ان کے ہمنوا مقلد بنانے پر تلے ہوئے ہیں کسی باعلم سے پڑھ یا سن یا پوچھ کر ان مثالوں کو سمجھ لیں گے یا نہیں پہلی صورت تو ہونہیں سکتی ورنہ اللہ تعالیٰ کی خبر ’’بے علم ان مثالوں کو نہیں سمجھتے‘‘ کا واقع کے خلاف ہونا لازم آتا ہے جو محال ہے یاد رہے اس خبر میں بے علم کے ان مثالوں کو سمجھنے کی نفی عام ہے جو اس کے خود سمجھنے ، کسی سے پڑھ ، سن اور پوچھ کر سمجھنے اور کسی اور ذریعہ سے سمجھنے سب کی نفی کو شامل ہے ۔ اور دوسری صورت میں اس کا کسی باعلم سے پڑھنا ، سننا اور پوچھنا عبث وبے فائدہ ہو جاتا ہے ۔ تو حضرت قاضی صاحب بتائیں اس آیت سے تقلید کا وجوب کیونکر نکلا ہاں اس آیت سے بے علم کا بے سمجھ ہونا ضرور ثابت ہوتا ہے﴿وَمَا یَعْقِلُہَا اِلاَّ الْعَالِمُوْنَ﴾
(۹) اہل علم خصوصاً ائمہ اربعہ حضرت الامام ابوحنیفہ ، حضرت الامام مالک ، حضرت الامام شافعی اور حضرت الامام احمد بن حنبل رحمہم اللہ تعالیٰ کے مابین کافی مسائل میں تنازع اور اختلاف پایا جاتا ہے اور تنازع واختلاف کی صورت میں اللہ تعالیٰ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع فرض ہے قرآن مجید میں ہے :﴿فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہٗ اِلَی اللّٰه وَالرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُوْمِنُوْنَ﴾[1] الآیۃ [پس اگر جھگڑ پڑو کسی چیز میں تو اس کو رجوع کرو طرف اللہ کے اور رسول کے اگر یقین رکھتے ہو ] تو کسی امام کی تقلید (جسے حضرت قاضی صاحب واجب قرار دے رہے اور اپنے قول ’’ہم تیسری شق کو لیتے ہیں‘‘ میں اختیار فرما رہے ہیں ) کی صورت میں مندرجہ بالا حکم ربانی اور نص قرآنی کی مخالفت لازم آتی ہے جو ناجائز ہے لہٰذا کسی امام کی تقلید بھی ناجائز رہا ثقہ رواۃ کی روایت پر اعتبار کرنا تو وہ ان کی مروی حدیث
[1] النساء ۵۹ پ۵