کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 592
(۳)حضرت قاضی صاحب کے معنی سے لازم آتا ہے کہ مقلد تقلید کرنے سے پہلے مسائل کے قرآن وحدیث سے ثابت ہونے کا عالم ہو تو واضح ہے پھر وہ ان مسائل کو کسی اہل علم سے پڑھے سنے پوچھے یا نہ پڑھے سنے پوچھے دونوں صورتوں میں وہ مقلد نہ رہے گا ۔ لہٰذا ان کا یہ معنی کیسے صحیح ہو سکتا ہے ۔ (۴)حضرت قاضی صاحب دو ٹوک فیصلہ دیں مقلد عالم ہوتا ہے یا نہیں تو ان کی پہلی تینوں تحریریں نا درست کیونکہ ان میں مقلد کو بے علم قرار دیا گیا ہے اور اگر وہ فرمائیں مقلد عالم نہیں ہوتا تو ان کا بیان کردہ تقلید کا معنی غلط کیونکہ اس کی رو سے مقلد کا عالم ہونا ضروری ہے تو حضرت قاضی صاحب فیصلہ فرمائیں ان کا معنی تقلید درست ہے یا ان کی پہلی تین تحریرات ؟ (۵)حضرت قاضی صاحب کے معنی کے لحاظ سے مقلد کا قبل از تقلید قرآن وحدیث سے ثابت شدہ مسائل کا عالم ہونا ضروری ہے تو اگر اس کا یہ قبل از تقلید علم بھی تقلیداً ہو اور ایسے ہی اس سے پہلے الی غیر النہایہ تو تسلسل لازم آئے گا ورنہ تقلید ختم ۔ یہ پانچ سوال تو تقلید کے معنی سے متعلق تھے رہے واجب سے متعلق دو سوال تو وہ بھی مندرجہ ذیل ہیں۔ (۶) حضرت قاضی صاحب نے واجب کا معنی بیان کرتے ہوئے صرف اس کی دلیل کی کیفیت لکھی ہے اس لیے ان سے گزارش ہے کہ وہ اس کے فعل وترک کی کیفیت بھی بیان فرمادیں ؟ (۷) حضرت قاضی صاحب یہ تحریر کریں کہ وجوب کا درجہ ان کے ہاں شرعی ہے یا اصطلاحی ؟ ان سات سوالات کو ذہن نشین کرنے کے بعد حضرت قاضی صاحب کی پانچویں تحریر ملاحظہ فرمائیں وہ لکھتے ہیں ’’صرف پوچھنا یہ ہے کہ جو آدمی خود ان مثالوں کا علم نہیں رکھتا اس کے لیے مندرجہ ذیل تین شقوں میں حصر عقلی ہے یا نہیں ۔(۱) عمل واجب نہ ہو (۲) خود سمجھ کر عمل کرے (۳) کسی اہل علم کی تقلید میں عمل کرے۔ ہم تیسری شق کو لیتے ہیں آپ چوتھی شق نکال کر حصر عقلی کو توڑیں یا ان تین شقوں میں سے تیسری کو چھوڑ کر دکھائیں کہ کیا کرے ‘‘۔ (۱)حضرت قاضی صاحب مدعی ہیں نفس تقلید کے وجوب کا قرآن کریم سے ثابت ہونا ان کا دعویٰ ہے اس لیے ان کا کام تو تھا کہ تقلید کا وجوب قرآن کریم سے ثابت فرماتے مگر وہ تو ابھی تک تقلید اور وجوب کے صحیح معانی بھی بیان نہیں کر پائے بھلا وہ تقلید کے وجوب کو قرآن وحدیث سے کیا ثابت کریں گے؟ (۲)حضرت قاضی صاحب اگر بندہ کے مندرجہ بالا سات سوالات کے جواب دیتے تو ان کے اس حصر عقلی کی حقیقت