کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 59
یہ کہ آدمی دنیا میں ہی اس سے سچی توبہ کر لے ۔ مسلمان عوام کے شرک پرستی کے مظاہر ہی ہمیں بے چین اور مضطرب رکھتے ہیں اور ان کی خیر خواہی کا ہی جذبہ ہے جو ہمیں حق گوئی کا فریضہ ادا کرنے پر مجبور کر رہا ہے جراح یا سرجن کے اپریشن سے مریض کو تکلیف ضرور ہوتی ہے لیکن مریض کی خیر خواہی کا تقاضا ہوتا ہے کہ وہ اپریشن کے ذریعے سے گندا مواد یا فاضل مواد باہر نکال پھینکے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کے بغیر مریض کی صحت یابی ممکن نہیں ۔ علمائے اہل حدیث شرک وبدعت کے خلاف یہی عمل جراحی کرتے ہیں جس سے مریض کراہتا اور چیختا ہے تاہم علمائے اہلحدیث مسلمان عوام کے سچے خیر خواہ ہیں اور وہ اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں اور عوام کی ناراضی کے باوجود انہیں شرک وبدعت جیسے خطرناک امراض سے بچانے میں کوشاں ہیں ۔ جزاہم اللّٰہ وکثر اللّٰه فینا امثالہم ۔
دوسری بات موصوف نے یہ فرمائی ہے کہ ’’اللہ کے سوا کسی کو مت پکارو‘‘ کا مطلب ہے ’’اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو‘‘ ۔ یہ بات بھی بالکل صحیح اور بجا ہے اور آیت میں پکار کا فی الواقع یہی مطلب ہے کیونکہ مطلق پکار عبادت نہیں ہے بلکہ وہ پکار عبادت ہے جو کسی کو مافوق الاسباب طریقے سے مدد کے لیے ہو اگر اللہ کو پکارا جائے گا یعنی اس سے مدد کی درخواست کی جائے گی تو یہ اللہ کی عبادت ہو گی ، کسی پتھر کی مورتی کو پکارا جائے گا یعنی اس سے مدد طلب کی جائے گی تو اس مورتی کی پوجا (عبادت) ہو گی ، قبر میں مدفون کسی شخص کو پکارا جائے گا یعنی اس سے استغاثہ واستعانت کی جائے گی تو یہ اس بزرگ کی عبادت ہو گی ۔
اس لیے مسئلہ صرف یہ نہیں ہے کہ ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ کہنا جائز ہے یا نہیں ۔ کیوں کہ اگر عقیدہ یہ ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عالم الغیب ، حاضر وناظر اور سمیع وبصیر نہیں ہیں تو وہ ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ کہہ لے گا تو اس میں کوئی حرج نہیں ، جس طرح ’’التحیات‘‘ میں السلام علیک ایہا النبی کہا ہی جاتا ہے ۔ اگر بریلوی حضرات بھی یہ تسلیم کر لیں کہ ہمارا عقیدہ بھی یہی ہے کہ عالم الغیب ، حاضر وناظر ، سمیع وبصیر اور دور ونزدیک سے فریادیں سننے والا صرف اللہ تبارک وتعالیٰ ہی ہے ۔ ہم کسی نبی ، ولی اور بزرگ کے اندر یہ صفات الٰہی تسلیم نہیں کرتے تو یقینا ان کا ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ کہنا شرک نہیں ہو گا ۔ اسے بے تکی ترکیب ضرور کہا جائے گا لیکن اسے شرک سے تعبیر نہیں کیا جائے گا ۔
لیکن اصل بات یہی ہے کہ بریلوی حضرات کا عقیدہ ہی صحیح نہیں ہے اس لیے ان کا ’’یا رسول اللہ ‘‘ کہنا محض ’’السلام علیک ایہا النبی‘‘ کے قبیل سے نہیں ہے کہ جسے جائز تسلیم کر لیا جائے بلکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عالم الغیب ، حاضر وناظر اور سمیع وبصیر ہیں ، اس لیے جب ہم ’’یا اللہ‘‘ کہتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ہماری اس نداکو سنتا ہے اسی طرح