کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 583
حضرت القاضی(۱)
۲۲ شوال ۱۴۰۱ ھ
ایک امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید کوئی واجب نہیں کہتا اور نفس تقلید کا وجوب قرآن کریم سے ثابت﴿وَتِلْکَ الاَمْثَالُ نَضْرِبُہَا لِلنَّاسِ وَمَا یَعْقِلُہَا اِلاَّ الْعَالِمُوْنَ﴾ خلاصہ یہ کہ مثالوں پر عمل کرنا تو سب لوگوں پر واجب ہے اور ان کو سمجھنا صرف علم والوں کا کام ہے ۔ تو دوسروں پر واجب ہے کہ ان سے پوچھ کر ان پر عمل ۔ شمس الدین
حضرت الحافظ (۱)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
۲۲ شوال ۱۴۰۱ ھ کی بات ہے کہ جناب محمد خالد صاحب نے وجوب تقلید کے اثبات میں حضرت القاضی شمس الدین صاحب مدظلہ کا ایک فتویٰ بندہ کو دکھایا اور اس پر کچھ لکھنے کا مطالبہ کیا جسے اس نے قبول کر لیا۔
تو حضرت قاضی صاحب اپنے اس فتویٰ میں لکھتے ہیں ’’نفس تقلید کا وجوب قرآن کریم سے ثابت [1]﴿وَتِلْکَ الاَمْثَالُ نَضْرِبُہَا لِلنَّاسِ وَمَا یَعْقِلُہَا اِلاَّ الْعَالِمُوْنَ﴾[2] الخ [اور یہ مثالیں بیان کرتے ہیں ہم لوگوں کے واسطے اور ان کو سمجھتے وہی ہیں جن کو سمجھ ہے]
اہل علم کو معلوم ہے کہ جب تک دعویٰ میں مذکور الفاظ کے معانی متعین نہ ہوں اس وقت تک معلوم نہیں ہو سکتا کہ وہ دعویٰ مدعی کی پیش کردہ دلیل سے ثابت ہو بھی رہا ہے یہ نہیں اور الفاظ دعویٰ کے معانی مدعی ہی متعین کیا کرتا ہے یا پھر اس کا کوئی وکیل۔
لہٰذا جناب ماسٹر صاحب سے اپیل ہے کہ وہ حضرت قاضی صاحب سے ان کے اپنے ہی دعوے میں مذکور الفاظ تقلید ، نفس تقلید اور وجوب کے معانی متعین کروائیں کہ وہ اس مقام پر تقلید ، نفس تقلید اور وجوب سے کیا کیا معانی مراد لے رہے ہیں تاکہ جائزہ لیا جا سکے آیا ان کا دعویٰ ’’نفس تقلید کا وجوب ‘‘ اللہ تعالیٰ کے قول﴿وَتِلْکَ الاَمْثَالُ نَضْرِبُہَا لِلنَّاسِ وَمَا یَعْقِلُہَا اِلاَّ الْعَالِمُوْنَ﴾ سے ثابت ہوتا بھی ہے یا نہیں ؟
ابن عبدالحق بقلمہ سرفراز کالونی جی ٹی روڈ گوجرانوالہ۲۳شوال۱۴۰۱ ھ
[1] اس مقام پر ’’ہے‘‘ کا لفظ حضرت قاضی صاحب کی تحریر میں نہیں نیز ان کی تحریر کے آغاز میں تسمیہ نہیں ہے۔
[2] العنکبوت ۴۳ پ۲۰