کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 58
ہے جو گزشتہ مشرک قوموں کا عقیدہ رہا ہے تو ان کا شرک ، شرک کیوں نہیں ؟ محض عنوان بدل دینے سے تو شرک کی ماہیت وحقیقت تبدیل نہیں ہو جائے گی جب ان دونوں گروہوں (بریلوی اور شیعوں) کا عقیدہ وعمل بھی فوت شدگان کے ساتھ وہی ہے جو مشرک قوموں کا اپنے بتوں کے ساتھ رہا ہے تو پھر دونوں کے درمیان فرق وامتیاز کس طرح کیا جا سکتا ہے ؟ اور یہ کیوں کر قرین عدل ہو سکتا ہے کہ ایک کو تو مشرک قرار دیا جائے ، جب کہ دوسرا شخص بھی وہی کچھ کرے تو اسے مشرک تسلیم کرنے سے گریز کیا جائے ۔ تِلْکَ اِذًا قِسْمَۃٌ ضِیْزٰی
’’عبادت‘‘ کسے کہتے ہیں اور ’’معبود ‘‘ کون ہوتا ہے ؟ مضمون نگار لکھتا ہے : ’’ مسجدوں میں یا رسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم کہنے سے روکنے والے حضرات سورئہ جن کی آیت نمبر ۱۸ بھی پیش کرتے ہیں﴿وَاَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلّٰہِ فَلاَ تَدْعُوْا مَعَ اللّٰهِ اَحَدًا﴾ اور یہ کہ مسجدیں اللہ (تبارک وتعالیٰ) کے لیے ہیں لہٰذا ان میں اللہ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو ۔
تفہیم القرآن میں مودودی صاحب نے اس آیت کی تشریح میں لکھا ہے کہ ’’مفسرین نے بالعموم ’’مساجد‘‘ کو عبادت گاہوں کے معنی میں لیا ہے اور اس معنی کے لحاظ سے آیت کا مطلب یہ ہو گا کہ عبادت گاہوں میں اللہ کے ساتھ کسی اور کی عبادت نہ کی جائے‘‘ ۔
آیت قرآنی کا مقصد ومدعا بھی حقیقتاً یہی ہے ۔ مودودی صاحب کے پیروکاروں کو اور دیگر دیوبندی اور اہلحدیث حضرات کو فہم وفراست سے کام لینا چاہیے اور ارشاد خداوندی کو سمجھنا چاہیے خواہ مخواہ کفر وشرک وبدعت کے فتویٰ لگا کر اپنی عاقبت کو خراب نہیں کرنا چاہیے …… تدعوا کا معنی تعبدوا یعنی بندگی یا عبادت آتا ہے … اللہ (تبارک وتعالیٰ) کے ساتھ کسی کو نہ پکارو’’یعنی کسی دوسرے معبود کو نہ پکارو‘‘۔[1]
اس اقتباس میں ’’سیدھا راستہ‘‘ کے مضمون نگار منیر احمد یوسفی صاحب نے ایک تو یہ مخلصانہ مشورہ دیا ہے کہ خواہ مخواہ شرک وبدعت کے فتوے لگا کر اپنی عاقبت خراب نہیں کرنی چاہیے ۔ کیونکہ حدیث کے مطابق بلاو جہ کسی مسلمان کو کافر کہنے والا خود کافر قرار پاتا ہے ۔ یہ مخلصانہ مشورہ بالکل بجا ہے ۔ الحمد للہ ۔ ہم اس پر پہلے ہی عمل پیرا ہیں ۔ ہم خواہ مخواہ شرک وبدعت کے فتوے لگا کر اپنی عاقبت خراب کرنا نہیں چاہتے ۔ لیکن جہاں فی الواقع شرک ہو رہا ہو ، اس کی نشاندہی کرنا اور مسلمانوں کو اس سے آگاہ کرنا تو وہ ضروری فریضہ ہے کہ اس میں مداہنت کا مظاہرہ کرنے والا گونگا شیطان قرار پاتا ہے ۔ ’’الساکت عن الحق شیطان اخرس‘‘ ہماری خواہش اورکوشش ہے کہ مسلمان مشرکانہ عقائد واعمال سے تائب ہو جائیں جن میں وہ بدقسمتی سے مبتلا ہیں کیونکہ شرک ایسا ظلم عظیم ہے جو ناقابل معافی ہے اِلاَّ
[1] ص۳۰اور ۴۳