کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 578
گزارش ہے کہ آج بروز سوموار ۲۷ ذوالحجہ ۱۴۰۱ مطابق ۲۶ اکتوبر 1981 بوقت دوپہر جناب کی طرف سے نوازش نامہ بندہ تک پہنچا مگر پڑھنے کے بعد دل نے یہی کہا اے بسا آرزو کہ خاک شدہ مکرمی بندہ کا مقصد سوال کرنے سے صرف حقیقت معلوم کرنا ہے مگر آپ لکھتے ہیں کہ تقلید کا حکم اس وقت تک نہ واضح ہو سکتا ہے نہ ہی واضح کیا جا سکتا ہے جس وقت تک تقلید کا معنی معلوم نہ ہو جائے اور آگے دو معنوں کی طرف اشارہ فرمایا پھر سوال وجواب کی طرف اشارہ فرمایا تو اس سے بہتر یہی نہ تھا کہ سائل کو لمبے چکر میں ڈالنے کی بجائے آپ خود اپنا معہود فی الذہن تقلید کا معنی لکھ دیتے اور ساتھ حکم مدلل لکھ دیتے لہٰذا سائل کو اور حضرات کے بیان کی طرف بھیجنے کی بجائے خود آپ اپنے پاس سے تسلی بخش معنی اور حکم مدلل بیان فرما دیں جب ان سے سوال کروں گا تو ان کے بیان فرمودہ معنی اور حکم کو دیکھ لیا جائے گا زیادہ مفید صورت یہی ہے کہ آپ بیان فرما دیں کیونکہ اگر اس طرح دیگر حضرات علماء عظام کے بیان کردہ معنوں کو دیکھنے لگیں تو بات بلاوجہ طول پکڑتی ہے کہ پہلے ان کے معنی دیکھو پھر ان کی تشریحات الخ بندہ نے یہ لفظ دونوں مسلک (حنفی اہل سنت اور اہلحدیث) کے علماء کی کتب میں دیکھا ہے دونوں ہی اس کی بعض صورتوں کو جائز اور بعض کو ناجائز وغیرہ لکھتے ہیں مثلاً فتاویٰ نذیریہ ص۱۷۹ ج۱ یجوز تقلید المفضول مع وجود الافضل الخ تو اس سے معلوم ہوا کہ تقلید کاکوئی معہود معنی مسلک اہلحدیث میں بھی جائز ہے اسی قسم کے اشکالات کی وجہ سے بندہ نے سوال کیا تھا کہ اس تقلید ائمہ کی مکمل تشریح سامنے فرما دیں جس میں لازماً تقلید کا معنی اور مکمل تفصیلی حکم داخل ہے اور آپ نے جو پہلے کاغذات بھیجے تھے ان میں آپ کی طرف سے تقلید کا معنی نظر سے نہیں گزرا بندہ کو مخالف نہ سمجھیں حقیقت سمجھانے کی پوری کوشش فرمائیں شاید اس سے دین کا فائدہ ہو ۔ والسلام : محمد عبداللہ راشدؔ مدرسہ دار التوحید والسنہ منڈیالہ تیگہ ضلع گوجرانوالہ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
جناب راشد صاحب !زادنی اللّٰه تعالی وایاک علما نافعا وعملا صالحا وعلیکم السلام ورحمۃ اللّٰه وبرکاتہ
اما بعد ! ۳۰ ذوالحجہ ۱۴۰۱ قبل از نماز ظہر آپ کا تیسرا گرامی نامہ موصول ہوا جس میں آپ میری دوسری تحریر پڑھ کر لکھتے ہیں ’’مکرمی بندہ کا مقصد سوال کرنے سے صرف مسئلہ کی حقیقت معلوم کرنا ہے مگر آپ لکھتے ہیں کہ تقلید کا حکم اس وقت تک نہ واضح ہو سکتا ہے نہ ہی واضح کیا جا سکتا ہے جس وقت تک تقلید کا معنی معلوم نہ ہو جائے اور آگے دو معنوں کی طرف اشارہ فرمایا پھر سوال وجواب کی طرف اشارہ فرمایا تو اس سے بہتر یہی نہ تھا کہ سائل کو لمبے چکر میں ڈالنے کی بجائے آپ خود اپنا معہود فی الذہن تقلید کا معنی لکھ دیتے اور ساتھ حکم مدلل لکھ دیتے‘‘ الخ