کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 57
حضرات اس شرک صریح کا ارتکاب کرتے ہیں یعنی اللہ کے ساتھ دوسروں کی عبادت بھی کرتے ہیں یا اللہ کی صفات بزرگوں میں بھی مانتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ نہیں ہم تو شرک نہیں کرتے ، کیونکہ شرک تو اس وقت ہوتا جب ہم انہیں معبود سمجھ کر پکارتے ، حالانکہ جب ان کے اندر خدائی صفات تسلیم کر لی گئیں یاخدا کی طرح ان کو حق عبادت میں شریک کر لیا گیا تو وہ ’’معبود‘‘ تو بن گئے ۔ آپ انہیں معبود کہیں یا نہ کہیں جب معبود والی چیزیں ان کے لیے مان لی گئیں تو وہ ’’معبود‘‘ از خود بن گئے جس طرح پتھر کی مورتی کی پوجا کرنے والا ہے وہ بھی اسے خدایا معبود نہیں سمجھتا بلکہ اسے خدا کا مظہر یا اوتار سمجھ کر اس سے دعائیں کرتا ہے ۔ اس کے نام پر چڑھاوے چڑھاتا ہے یعنی نذر دیتا ہے ۔ اس سے نفع وضرر کی امیدیں رکھتا ہے اور اسے فریاد رس اور حاجت روا سمجھتا ہے مسلمان اس کے بارے میں عقیدہ رکھتا ہے کہ یہ مشرک ہے کیوں کہ پتھر کی مورتی کی پوجا کرتا ہے حالانکہ اسے وہ معبود نہیں سمجھتا ہے نہ معبود سمجھ کر اسے پکارتا ہی ہے اس کے باوجود وہ مشرک ہے کیوں؟ اس لیے کہ وہ مورتی کو معبود سمجھتا ہے یا نہیں سمجھتا ، لیکن اس کے ساتھ اس پجاری کا معاملہ وہی ہے جو ایک عابد اور معبود کے درمیان ہوتا ہے اس لیے وہ یقینا مشرک ہے ۔
لیکن یہی مسلمان قبروں کے ساتھ یا مردہ بزرگوں کے ساتھ یہی کچھ کرتا ہے تو کہتا ہے یہ شرک نہیں ، کیونکہ میں اسے معبود سمجھ کر نہیں پکارتا اگر یہ دلیل صحیح ہے اور اس طرح شرک ، شرک نہیں رہتا تو پھر ہندو بھی مشرک نہیں ہے کیونکہ وہ بھی مورتی کو معبود نہیں سمجھتا مشرکین مکہ بھی مشرک نہیں کیوں کہ وہ بھی لات وعزیٰ اور منات وہبل کو معبود نہیں سمجھتے تھے وہ بھی ان کو خدا کا وسیلہ اور ذریعہ تقرب سمجھتے تھے جیسا کہ خود قرآن مجید نے اس کی وضاحت کی ہے کہ قوم نوح جن (۵) پانچ بتوں کو پوجتی تھی وہ بھی معبود نہیں تھے اللہ کے نیک بندے ہی تھے۔ (جیسا کہ صحیح بخاری میں صراحت موجود ہے) [1] اس لحاظ سے تو قوم نوح علیہ السلام نے بھی شرک کا ارتکاب نہیں کیا اور قرآن دیگر مشرکوں کے بارے میں بھی کہتا ہے :﴿اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ عِبَادٌ اَمْثَالُکُمْ﴾ [2] ۔’’جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ تم جیسے ہی بندے ہیں‘‘ ۔
گویا کسی دور میں بھی ایسے شرک کا وجود نہیں رہا کہ جس میں غیر اللہ کو معبود سمجھ کر پکارا گیا ہوبلکہ ہر دور میں شرک کی نوعیت یہی رہی ہے کہ اللہ کے نیک بندوں کی ہی تصویریں ، مورتیں ، یا قبریں یہ سمجھ کر پوجی جاتی رہی ہیں کہ یہ اللہ کے نیک بندے تھے ، وفات کے بعد اللہ سے ان کا ’’وصال‘‘ ہو گیا ہے اور یہ اب اللہ کے مظہر یا اوتار ہو گئے ہیں ، ان کے ذریعے سے ہی ہم اللہ کا قرب حاصل کر سکتے ہیں ، ان کے وسیلے سے ہی ہماری دعائیں اور التجائیں سنی جا سکتی ہیں اور ان کے نام کی نذر نیازیں دے کر ہی ہم اللہ کو راضی کر سکتے ہیں۔ قرآن نے اسی عقیدہ وعمل کو شرک کہا ہے ۔ اور اس کے مرتکبین کو مشرک ، اگر قرآن کریم کی صراحت صحیح ہے اور یقینا صحیح ہے تو پھر بریلوی اور شیعوں کا عقیدہ وعمل بھی وہی
[1] بخاری کتاب التفسیر سورۃ نوح
[2] الاعراف ۔۱۹۴