کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 567
کی وجہ یہ ہے کہ جب یہ علم ہی نہ ہو کہ خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے تو اس خبر کا مضمون علم سے بہت بعید ہو گا لیکن ان کے علاوہ وہ احکام جن میں ہم پر علم واجب نہیں اور بے شک نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بیان کیا اور اللہ عزوجل سے خبر دی پس بے شک ان میں خبر واحد مقبول ہو گی اور اس پر عمل کرنا واجب ہو گا اور خبر واحد جب عقل کے منافی ہو یا قرآن کے منافی ہو جو ثابت محکم ہے یا سنت معلومۃ کے یا ایسے فعل کے جو سنت کے قائم مقام ہے یا قطعی دلیل کے منافی ہو تو قبول نہیں کی جائے گی] زبیر علی زئی حضرو س : صاحب کفایہ کا جو کلام آپ نے نقل کر کے بھیجا ہے اس کی بنیاد دو مقدمات پر ہے ۔ (۱)خبریات علمیہ (عقائد) میں علم ویقین کا فائدہ دینے والی دلیل کا ہونا ضروری ہے جبکہ طلبیات عملیہ (احکام) میں علم ویقین کا فائدہ دینے والی دلیل کا ہونا ضروری نہیں ان میں ظن غالب کا فائدہ دینے والی دلیل بھی کافی ہے ۔ (۲) خبر واحد قطع ویقین کا فائدہ نہیں دیتی۔ مگر ان دو مقدمات کے اثبات میں جو دلائل بیان کئے جاتے ہیں وہ ان مقدمات کے اثبات پر دلالت نہیں کرتے لہٰذا صاحب کفایہ کا یہ عندیہ درست نہیں ۔ چنانچہ آپ کفایہ ہی سے باب ما جاء فی التسویۃ بین حکم کتاب اللّٰه وحکم سنۃ رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم ، باب تخصیص السنن لعموم محکم القرآن اور باب ذکر الدلائل علی صحۃ العمل بخبر الواحد کا مطالعہ فرمائیں ان بابوں میں آپ کو کئی چیزیں ایسی مل جائیں گی جن سے خبر واحد کا مفید قطع ہونا ثابت ہوتا ہے ۔ شیخ محمد عید عباسی شیخ البانی کے رسالہ ’’الحدیث حجۃ بنفسہ فی العقائد والاحکام‘‘ کے مقدمہ میں لکھتے ہیں : ’’وَالْحَقُّ الَّذِیْ نَرَاہُ وَنَعْتَقِدُہُ اَنَّ کُلَّ حَدیْثٍ اٰحَادِیٍ صَحِیْحٍ تَلَقَّتْہُ الْأُمَّۃُ بِالْقُبُوْلٍ مِنْ غَیْرِ نَکِیْرٍ مِنْہَا عَلَیْہِ اَوْ طَعْنٍ فِیْہِ فَإِنَّہٗ یُفِیْدُ الْعِلْمَ وَالْیَقِیْنَ سَوَائٌ کَانَ فِیْ أَحَدِ الصَّحِیْحِیْنٍ أَوْ فِیْ غَیْرِہِمَا‘‘ [اور وہ چیز جو حق ہے ہماری رائے اور عقیدہ کے مطابق کہ ہر وہ حدیث صحیح خبر واحد جس کو امت نے بغیر کسی انکار اور طعن کے قبول کیا ہے پس بے شک وہ علم ویقین کا فائدہ دیتی ہے صحیحین میں سے کسی ایک میں ہو یا ان دونوں کے علاوہ کسی کتاب میں ہو] پھر اس پر تعلیق میں لکھتے ہیں : ’’ثُمَّ رَأَیْتُ الْخَطِیْبَ الْبَغْدَادِیَ قَدْ جَزَمَ بِذٰلِکَ فِیْ کِتَابِہِ‘‘ (۱) [پھر میں نے دیکھا کہ خطیب بغدادی نے اسی چیز کو جزم کے ساتھ بیان کیا ہے] رہا منکرین حدیث کا معاملہ تو وہ لوگ جن ابواب میں خطیب صاحب نے خبر واحد کے مقبول ہونے کی تصریح فرمائی ہے ان ابواب میں بھی خبر واحد کو بلکہ خبر متواتر کو بھی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ اس لیے ان کا معاملہ