کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 56
اسی طرح مضمون نگار نے قرآن کریم کی متعدد آیات جمع کر دی ہیں جن میں کسی نہ کسی طرح ’’پکار‘‘ کا مضمون ہے مثلاً نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو پکارا﴿رَبِّ اِنِّی دَعَوْتُ قَوْمِیْ لَیْلاً وَّنَہَارًا﴾[1] دیگر انبیاء علیہم السلام کا اپنی قوموں کو پکارنا ۔ اللہ کا پکارنا ۔﴿وَاللّٰهُ یَدْعُوْا اِلٰی دَارِ السَّلاَمِ﴾[2] (اللہ تعالیٰ دار السلام کی طرف پکارتا ہے) وغیرہم من الآیات ۔
بتلائیے ! ان آیات کا کوئی تعلق اس ’’پکار‘‘ سے ہے جو مابہ النزاع ہے ؟ پھر ان آیات کے جمع کرنے کا کیا فائدہ ؟ اصل اختلاف تو اس ’’پکار‘‘ میں ہے جو مافوق الاسباب طریقے سے کسی مردہ کو مشکل کشائی اور مدد حاصل کرنے کے لیے پکارا جاتا ہے ۔ یہ شرک ہے کیوں کہ اس طریقے سے کسی مردہ کو پکارنا ، یہ اس کی عبادت ہے اور عبادت اللہ کے سوا کسی کی جائز نہیں ۔
خود مضمون نگار مضمون کے آخر میں لکھتا ہے : ’’اللہ تبارک وتعالیٰ جس بات کی ممانعت فرماتا ہے ، وہ یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ جل شانہٗ کے ساتھ کسی کو ’’الٰہ‘‘ ’’معبود‘‘ ’’عبادت کے لائق‘‘ سمجھ کر نہ پکارا جائے۔[3]
بالکل یہی بات اہل حدیث کہتے ہیں ، پھر اختلاف کیوں ؟ اختلاف یہ ہے کہ بریلوی حضرات یہ تو تسلیم کرتے ہیں (جیسا کہ مضمون نگار نے بھی کہا ہے) کہ کسی کو معبود سمجھ کر نہ پکارا جائے لیکن یہ تسلیم نہیں کرتے کہ کسی فوت شدہ بزرگ کو ما فوق الاسباب طریقے سے مدد کے لیے پکارنا ، اس سے دعائیں کرنا ، اس کے نام کی نذر نیاز دینا ، اس سے نفع وضرر کی امید رکھنا یہ اس کو ’’الٰہ‘‘ اور ’’معبود‘‘ بنانا ہی ہے ۔ اور یوں وہ اللہ کے ساتھ شرک کا ارتکاب کرتے ہیں ۔ کیوں کہ دعا بھی عبادت ہے نذر نیاز بھی عبادت ہے جو وہ اللہ کے ساتھ دوسروں کے لیے بھی کرتے ہیں ۔ بریلوی اللہ سے بھی دعائیں کرتے ہیں مردہ بزرگوں سے بھی دعائیں کرتے ہیں اللہ کے نام کی نذر ونیاز بھی دیتے ہیں اور بزرگوں کے ناموں کی بھی نذر ونیاز دیتے ہیں اللہ سے بھی نفع وضرر کی امید رکھتے ہیں اور فوت شدہ بزرگوں سے بھی ما فوق الاسباب طریقے سے نفع وضرر کی امید رکھتے ہیں۔ اللہ کو بھی عالم الغیب مانتے ہیں اور اللہ کے نبیوں اور ولیوں کو بھی عالم الغیب مانتے ہیں اللہ کو بھی دور اور نزدیک سے فریادیں سننے والا تسلیم کرتے ہیں اور بزرگوں کے اندر بھی یہ قوت یا صفت تسلیم کرتے ہیں۔اہلحدیث کہتے ہیں کہ شرک اسی چیز کا نام ہے کہ اللہ کے ساتھ کسی اور کو بھی عبادت میں شریک کر لیا جائے، یا اللہ کی صفات میں سے کوئی صفت کسی اور میں تسلیم کر لی جائے اور مذکورہ افعال سارے ایسے ہیں کہ ان میں یا تو اللہ کے ساتھ کسی اور کی عبادت ہوتی ہے یا اللہ کی صفت میں مردہ بزرگوں کو شریک سمجھا جاتا ہے بریلوی
[1] نوح ۵
[2] یونس ۲۵
[3] سیدھا راستہ ، ص۳۰