کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 550
رأیتہا فی نسخۃ بولاق من السنن (۲/۱۵۱) (۱/۲۵۷)۔ ۱ ھ ‘‘
(۲) ابوداود لکھتے ہیں : ’’حدثنا عبد اللّٰه بن محمد الزہری نا سفیان عن یزید نحو حدیث شریک لم یقل : ثم لا یعود ۔ قال سفیان : قال لنا بالکوفۃ بعد : ثم لا یعود ۔ قال أبوداود : روی ہذا الحدیث ہشیم ، وخالد ، وابن ادریس عن یزید لم یذکروا : ثم لا یعود‘‘ 1 ۔ ھشیم کی روایت مصنف ابن ابی شیبہ ۱/۲۳۳ اور خالد کی روایت سنن دار قطنی ۱/۲۹۴ پر مذکور ہے جبکہ سفیان کی روایت ابوداود نے خود ذکر کر دی ہے نیز وہ سنن دار قطنی ۱/۲۹۳ پر مذکور ہے پھر شعبہ کی روایت بھی سنن دارقطنی ۱/۲۹۳پر بیان ہوئی ہے اور علی بن عاصم کی روایت بھی سنن دار قطنی ۱/۲۹۴ پر موجود ہے۔
(۳) تحفۃ الأحوذی ۱/۲۲۰ میں لکھا ہے : ’’قال الحافظ الزیلعی فی نصب الرایۃ : قال ابن أبی حاتم فی کتاب العلل : سألت أبی عن حدیث رواہ سفیان الثوری عن عاصم بن کلیب عن عبد الرحمن بن الأسود عن علقمۃ عن عبد اللّٰه أن النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم قام فکبر فرفع یدیہ ثم لم یعد فقال أبی : ہذا خطأ ۔ یقال : وہم فیہ الثوری فقد رواہ جماعۃ عن عاصم ، وقالوا کلہم إن النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم افتتح فرفع یدیہ ثم رکع فطبق وجعلہما بین رکبتیہ ولم یقل أحد ما روی الثوری ۔ انتہی ما فی نصب الرایۃ۔۱ ھ‘‘ اس جماعت سے مجھے بھی ابن ادریس کا نام اور ان کی روایت یاد ہے باقی جماعت کے نام یاد نہ ہی ان کی روایات یاد ہیں ۔
۱۲/۳/۱۴۱۱ ھ
س: (۱)تلقی علماء بالقبول کیا ہے ؟ (۲) جس حدیث کی سند نہ ہو اسے تلقی حاصل ہو سکتا ہے ؟ (۳)جس کی سند نہ ہو اسے کیا کہتے ہیں؟(۴)اجتہاد کی تعریف عربی الفاظ کا اردو ترجمہ کیا تصحیح یا تضعیف اجتہادی امر ہے تھوڑی سی اردو میں وضاحت کر دیں ؟ ابھی کچھ مزید سوالات پیدا ہوئے ہیں ۔
(i)ضعیف کا درجہ بے سند روایت سے فرو تر ہے یا بر تر؟( ii)صاحب مشکوٰۃ نے بھی تو یہی نہج اختیار کی ہے کہ ایک صحابی رضی اللہ عنہ کا نام لے کر حدیث بیان کر دی ہے ۔ کیا مشکوٰۃ کی احادیث اور اس ’’یَا جَابِرُ اَوَّلُ مَا خَلَقَ اللّٰهُ نُوْرِیْ‘‘ والی حدیث میں یہ قدر مشترک نہیں کہ دونوں کی تفصیلی سند نہیں ۔ کیا وجہ ہے کہ مشکوٰۃ کی احادیث قبول اور ’’یاجابر‘‘ والی نہیں مانی جا رہی (iii) جس حدیث میں ہے کہ سب سے پہلے قلم پیدا کیا گیا اس میں اولیت اضافی ہے حقیقی نہیں ۔ یہ