کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 55
اس کی وجہ یہ بتلائی گئی ہے کہ محبوب کے ذکر سے انسان کے دل میں حرارت اورنشاط کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے ، جس سے منجمد خون رواں ہو کر رگوں میں دوڑنا شروع کر دیتا ہے اور یوں سن والی کیفیت ختم ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض اور واقعات بھی ایسے ملتے ہیں جن میں لوگوں نے اپنے کسی محبوب یا محبوبہ کا نام لیا تو ان کے پیروں کا سن پنا ختم ہو گیا [1] اس کا مطلب یہ ہوا کہ پیر سن ہونے کی صورت میں اپنے کسی محبوب کا نام لینا اور اسے محبت سے یاد کرنا ، یہ اس مرض کا نفسیاتی علاج ہے ، اس کا کوئی تعلق فوت شدگان سے استغاثہ واستمداد سے نہیں ہے جیسا کہ مضمون نگار نے سمجھا اور باور کرایا ہے ۔
دوسری بات یہ ہے کہ نداء کے لیے یہ ضروری نہیں ہوتا کہ ’’منادیٰ‘‘ ضرور سامنے ہو یا وہ نداء کو سنے بلکہ بعض دفعہ اپنے جذبات کے اظہار اور دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے بھی ’’منادیٰ‘‘ کو اپنے ذہن میں مستحضر کر کے خطاب کر لیا جاتا ہے یہاں بھی یہی صورت ہے ۔
مضمون نگار کی دو اور ’’دلیلیں‘‘ ملاحظہ فرمائیں جن سے اس نے مردوں سے مدد مانگنے کے جواز پر استدلال کیا ہے لکھتا ہے : ’’حضرت عزرائیل علیہ السلام مردوں کو پکاریں گے ، حضرت ابراہیم خلیل اللہ علی نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے مردہ پرندوں کو پکارا‘‘ ۔ [2]
غور فرمائیے ! یہ کیا ’’دلیلیں‘‘ ہیں ؟ ان کو ’’دلیل‘‘ کہا جا سکتا ہے ؟ بھلا ان سے کوئی پوچھے ، حضرت عزرائیل علیہ السلام مردوں کو پکاریں گے تو کیا ان سے مدد طلب کرنے کے لیے پکاریں گے یا اللہ کے حکم کے مطابق قیامت برپا کرنے کے لیے صور پھونکیں گے ؟ قیامت کے صور پھونکنے کو یہ باور کرانا کہ حضرت عزرائیل بھی مردوں کو پکاریں گے لہٰذا تم بھی مردوں کو مدد کے لیے پکار سکتے ہو ۔ بڑا ہی عجیب استدلال ہے۔ اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کا پرندوں کو پکارنا ، کیا ان سے مدد طلب کرنے کے لیے تھا ؟ یا اپنے اطمینان قلب کے لیے مردوں کو زندہ ہوتے ہوئے دیکھنے کے لیے تھا؟ اس سے یہ استدلال کرنا کہ مردوں کو پکارنا جائز ہو گیا ، لہٰذا مسلمانو ! تم بھی مدد کے لیے مردوں کو پکارو ! قرآن فہمی کا عجیب وغریب شاہکار ہے ؎
پاپوش میں لگائی کرن آفتاب کی
جو بات کی خدا کی قسم لاجواب کی
[1] ملاحظہ ہو الفتوحات الربانیہ علی الاذکار النواویہ ج۴ص۲۰۰ محمد بن علان الصدیقی ۔فضل اللّٰه الصمد فی توضیح الادب المفرد ، فضل اﷲ الجیلانی ج۲ ص۴۴۱ المکتبۃ الاسلامیہ ، حمص
[2] ماہنامہ ’’سیدھا راستہ‘‘ ص۲۵