کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 549
[بھی قابل استدلال نہ ہو ؟(۲) قابل استدلال ۔ قابل استشہاد ۔ قابل اعتبار ۔ اصطلاحات کی وضاحت کریں؟ اللہ دتہ اٹک ج: ( ۱) جامع ترمذی میں اس کی کئی مثالیں ملتی ہیں قلت فرصت کے باعث صرف ایک پر اکتفا کرتا ہوں۔ امام ترمذی رحمہ اللہ تعالیٰ سورہ انفال کی تفسیر کے آخر میں ایک حدیث نقل فرمانے کے بعد لکھتے ہیں : ’’ہٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ، وَأَبُو عُبَیْدَۃَ بْنُ عَبْدِ اللّٰه ِلَمْ یَسْمَعْ مِنْ أَبِیْہِ‘‘ دیکھئے امام صاحب موصوف رحمہ اللہ تعالیٰ اس حدیث کو حسن بھی قرار دیتے ہیں اور ساتھ ہی اس کے منقطع ہونے کی بھی تصریح فرماتے ہیں اور معلوم ہے کہ مرسل ومنقطع محدثین کے ہاں قابل احتجاج واستدلال نہیں جیسا کہ امام مسلم رحمہ اللہ تعالیٰ نے مقدمہ صحیح میں لکھا ہے ۔ (۲) اصطلاح میں قابل احتجاج یا قابل استدلال اس حدیث کو کہا جاتا ہے جو صحیح یا حسن ہو ۔ قابل استشہاد اس حدیث کو کہا جاتا ہے جو شواہد میں ذکر کئے جانے کی صلاحیت رکھتی ہو اور قابل اعتبار اس حدیث کو کہا جاتا ہے جو شواہد ومتابعات میں ذکر کیے جانے کی صلاحیت رکھتی ہو تفصیل اصول حدیث کی کتابوں میں ملاحظہ فرمائیں۔ ۲۹/۱/۱۴۱۲ ھ س: آپ نے مثالوں کا وعدہ کیا ہے وہ ایفا کر دیں براہ مہربانی ابن ابی زیاد ’’ثُمَّ لَمْ یَعُدْ‘‘ کے الفاظ کے ناقل ہیں لیکن ھشیم ، خالد اور تیسرے کا نام میں بھول گیا ہوں وہ تینوں کہاں روایت کرتے ہیں کتاب صفحہ باب وغیرہ لکھ دیں تاکہ ہم دیکھ سکیں کہ وہ ابن ابی زیاد سے برعکس بیان کرتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ سفیان ثوری کے علاوہ ایک جماعت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کرتی ہے لیکن وہ تو ’’ثُمَّ لَمْ یَعُدْ‘‘ کے الفاظ بیان نہیں کرتے کیا آپ اس جماعت کے فرداً فرداً شخص کا نام اور ان کی مروی روایت کی نشاندہی کر سکتے ہیں کہ کون سی کتاب میں وہ روایت کرتے ہیں ؟ ابن ادریس کی روایت مجھے معلوم ہے اس کے علاوہ بتائیں مہربانی ہوگی ؟ اللہ دتہ اٹک ج: (۱) ایک مثال تو پہلے لکھ چکا ہوں دوسری مثال حاضر خدمت ہے سلسلۃ الأحادیث الصحیحہ ۵/۲۴۳میں لکھا ہے ’’ثم إن الحدیث نقل الشوکانی عن الترمذی أنہ قال بعد إخراجہ : ہذا حدیث حسن لیس إسنادہ بذاک ۔ ولیس فی نسختنا منہ ہذا : لیس إسنادہ بذاک ۔ و اللّٰه اعلم ثم