کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 545
س: میرے بیٹے کا نام کسی نے عبداللہ رکھ دیا میں اسامہ رکھنا چاہتا ہوں عبداللہ نام ختم کر کے اسامہ رکھنے میں گناہ تو نہیں ہو گا ؟ انسپکٹر عبدالغفور ولد عبدالحق شاہدرہ لاہور ج: نہیں البتہ عبداللہ نام اسامہ نام سے افضل و احب ضرور ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :﴿أَحَبُّ الْأَسْمَآئِ إِلَی اللّٰه ِعَبْدُ اللّٰه ِوَعَبْدُ الرَّحْمَانِ﴾ [اللہ کے پسندیدہ نام عبداللہ اور عبدالرحمن ہیں] ۱۵/۱۰/۱۴۱۹ ھ س: ٍحافظ صاحب نام کے متعلق آپ نے لکھا کہ بشیر رزاق کی بجائے بشیر عبدالرزاق لکھا اور کہلوایا کرو اس سلسلہ میں وضاحت طلب ہے ۔ دوسرا یہ کہ سکول کے سر ٹیفکیٹ سے لے کر شناختی کارڈ تک یہی نام چلا آ رہا ہے اس کا کوئی حل ضرور بتائیں تاکہ نام کی غلطی دور ہو سکے ۔ ان شاء اللہ آج کے بعد میرا نام بشیر عبدالرزاق ہی ہو گا ۔ بشیر عبدالرزاق خانیوال ج: جہاں تک میں سمجھا ہوں آپ کے والد گرامی کا اسم گرامی ہے عبدالرزاق جس لیے آپ لکھتے ، لکھواتے اور کہتے کہلواتے ہیں بشیر رزاق مقصد ہے آپ کا بشیر بن عبدالرزاق ۔ تو ماشاء اللہ آپ دانا ہیں غور فرمائیں آپ کے والد صاحب کا نام عبدالرزاق ہے رزاق تو نہیں رزاق تو اللہ تعالیٰ کا نام ہے﴿إِنَّ اللّٰه ہُوَ الرَّزَّاقُ ذُوْالْقُوَّۃِ الْمَتِیْنُ﴾ آپ عبدالرزاق کے بیٹے ہیں رزاق کے بیٹے تو نہیں بلکہ﴿إِنَّ اللّٰه ہُوَ الرَّزَّاقُ لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ وَلَمْ یَکُنْ لَّہُ کُفُواً أَحَدٌ﴾ ۔ رہا دستاویزات والا مسئلہ تو اس میں کسی وکیل سے مشورہ کر لیں ۔ ۹/۳/۱۴۱۸ ھ س: لفظ ’’اَنَسْ‘‘ اس کی درستگی کیسی ہوگی ۔ حالانکہ میں نے حدیث میں﴿عَنْ اَنَسٍ﴾ پڑھا ہے جبکہ میرے تایا زاد بھائی کہتے ہیں لفظ ’’اَنْسْ‘‘ اس طرح ہے۔ نون اور سین دونوں ساکن ہیں۔ کیا یہ درست ہے ؟ حافظ محمد فاروق ج: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جلیل القدر صحابی اورخادم اَنَسْبن مالک رضی اللہ عنہ کے نام نامی اور اسم گرامی کو ہمزہ اور نون کے فتحہ کے ساتھ پڑھا جائے گا مشہور ومعروف لغت دان صاحب قاموس لکھتے ہیں ۔ ’’وَالْأَنَسُ مُحَرَّکَۃٌ الْجَمَاعَۃُ الْکَثِیْرَۃُ ، وَالْحَیُّ الْمُقِیْمُوْنَ وَبِلاَلاَمٍ خَادِمُ النَّبِیِّ صلی للّٰهُ علیہ وسلم‘‘ [اور انس حرکت کے ساتھ بہت زیادہ جماعت اور رہائشی قبیلہ اور بغیر لام کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم ہیں] رہا لفظ انس بسکون نون وبفتحہ یا ضمہ ہمزہ تو وحشت کی ضد کو کہتے ہیں مصدر ہے ۔ ۱۶/۷/۱۴۲۰ ھ