کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 541
دونوں چیزیں بے بنیاد اور فضول عذر ہیں حدیث یہاں فٹ آتی ہے اور آپ کے بھائی حدیث میں مذکور وعید کے مستحق وسزاوار ہیں انہیں فوراً توبہ کرنی چاہیے کیونکہ لکھنا کہنا ہی ہوتا ہے مثلاً کوئی آدمی اپنی بیوی کو طلاق لکھ کر بھیج دیتا ہے زبان سے طلاق یا اس کا ہم معنی کوئی لفظ نہیں بولتا تو طلاق ہو جائے گی اب اس کا کہنا ’میں نے طلاق لکھی ہے زبان سے تو نہیں کہی نہ بولی لہٰذا طلاق نہیں ہوئی‘‘ خواہ مخواہ ہے فضول عذر ہے مفتی صاحب سے پوچھیں لکھی ہوئی طلاق کے متعلق کیا فرماتے ہیں ؟
پھر اس میں دوسرے کو باور کرایا اور سمجھایا جا رہا ہے فلاں شخص آپ کے بھائیوں کا باپ ہے حالانکہ واقع اور نفس الامر میں وہ ان کا باپ نہیں تو غش اور دھوکے کے زمرہ میں آتا ہے اور دھوکا بھی جرم وگناہ ہے حالانکہ دھوکا دینے والے کو صحیح اور واقعی صورت حال کا علم ہوتا ہے مشکوۃ کتاب البیوع باب المنہی عنہا من البیوع فصل اول کی آخری حدیث نمبر ۲۸۶۰ (۲۷) بحوالہ صحیح مسلم یوں ہے﴿وَعَنْہُ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰه ِصلی اللّٰه علیہ وسلم مَرَّ عَلٰی صُبْرَۃِ طَعَامٍ، فَأَدْخَلَ یَدَہُ فِیْہَا فَنَالَتْ أَصَابِعُہُ بَلَلاً ، فَقَالَ : مَا ہٰذَا یَا صَاحِبَ الطَّعَامِ ؟ قَالَ : أَصَابَتْہُ السَّمَآئُ یَا رَسُوْلَ اللّٰهِ قَالَ : أَفَلاَ جَعَلْتَہُ فَوْقَ الطَّعَامِ حَتّٰی یَرَاہُ النَّاسُ مَنْ غَشَّ فَلَیْسَ مِنِّیْ﴾ [اسی (ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ) سے روایت ہے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غلہ کے ایک ڈھیر کے پاس سے گزرے آپ نے اپنا ہاتھ اس کے اندر داخل کیا آپ کی انگلیوں کو نمی محسوس ہوئی آپ نے فرمایا اے غلہ والے یہ کیا ہے اس نے کہا اس پر بارش ہوئی تھی اے اللہ کے رسول آپ نے فرمایا تو نے اس کو غلہ کے اوپر کیوں نہ رکھا تاکہ لوگ دیکھیں جو شخص دھوکہ دے وہ مجھ سے نہیں ]
اب دیکھئے صاحب صبرہ وڈھیر کو علم تھا وہ جانتا تھا نیچے والے خشک نہیں جس طرح آپ کے بھائی جانتے ہیں جس کا نام لکھا وہ ہمارا باپ نہیں اس کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ڈھیر والے کو مجرم گردانا اور فرمایا﴿مَنْ غَشَّ فَلَیْسَ مِنِّیْ﴾ تو اس کے نیچے والے دانوں کو خشک نہ سمجھنے سے اس کا جرم ختم نہیں ہوا اور نہ ہی حدیث﴿مَنْ غَشَّ فَلَیْسَ مِنِّیْ﴾ کا اس پر فٹ ہونا ختم ہوا بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بذات خود اس حدیث کو اس پر فٹ فرمایا بالکل بعینہٖ اسی طرح آپ کے بھائیوں کے لکھے ہوئے اس شخص کو باپ نہ سمجھنے سے ان کا جرم ختم نہیں ہوتا اور نہ ہی سعد ، ابوبکرہ اور ابوہریرہ کی حدیثوں کے ان پر فٹ ہونے کو ختم کرتا بلکہ ان کا جرم جوں کا توں موجود اور یہ حدیثیں بھی ان پر فٹ ہوتی ہیں خواہ وہ اس کو باپ نہیں سمجھتے نہ کہتے ہیں ۔
رہا آپ کا سوال ’’اور جنت کیا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حرام ہو جاتی ہے‘‘ تو اس سلسلہ میں آپ کو معلوم ہو گیا ہے کہ